بیٹی فروش حکمران

329

zc_Muzafer23 ستمبر پاکستانی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا اس روز پاکستان کی ایک مایہ ناز بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جنرل پرویز مشرف کی ڈرپوک حکومت نے امریکا کے حوالے کردیا تھا۔ اس کے بعد سے عافیہ کے بارے میں سرکاری سطح پر افواہیں پھیلائی گئیں اور غلط اطلاعات فراہم کی گئیں۔ اسے کبھی فزکس کا ماہر کہا گیا کبھی نیوکلیئر فزکس کا، حالاں کہ حقیقت بالکل مختلف تھی، آج 23 ستمبر ہے آج کے دن عافیہ کو امریکا کی ایک جعلی عدالت نے یکطرفہ مقدمہ چلا کر 86 برس کی سزا سنائی تھی۔ اب اس سزا کے سات سال مکمل ہوگئے ہیں۔ گویا جیل کے 14 سال اور مجموعی طور پر بھی عافیہ کو اغوا ہونے سے اب تک کا عرصہ 14 سال کا ہوچکا ہے۔ گزشتہ دو برس سے عافیہ کا اپنے گھر والوں سے ٹیلی فون پر بھی رابطہ نہیں کرایا گیا ہے اور کسی کو اس سے ملنے بھی نہیں دیا جاتا۔ جنرل پرویز مشرف خود کچھ بھی کہتے رہیں ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے 23 جنوری 2012ء کو خود اس کی تصدیق کی اور اس غلطی کا اعتراف کیا، ان کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’مجھے بے قصور عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا گہرا صدمہ ہے، یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی‘‘۔ لیکن بے حس حکمرانوں نے اس کے بعد بھی عافیہ کی وطن واپسی کے لیے ایک چھوٹا سا خط تحریر نہیں کیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عافیہ کی حوالگی کے 6 سال بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی عافیہ کی والدہ کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ عافیہ امریکی شہری ہے پھر بھی ہم نے وکیل کی فیس ادا کرکے اس کا مقدمہ لڑا۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ عافیہ امریکی نہیں پاکستانی ہے اور وکیل تو امریکی تھا جو پاکستانیوں کے لاکھوں ڈالر لے اُڑا۔ اس وقت کے وزیراعظم کے لیے ایک ماں کا تبصرہ یہ تھا کہ بیٹا تمہارا قصور نہیں ہے۔ تمہیں جن لوگوں نے یہاں بٹھایا ہے قصور ان کا ہے، معلومات کا یہ حال کہ اپنی قوم کی بیٹی کو امریکا کے حوالے کردیا گیا اور وہ اسے امریکی شہری کہتے رہے۔



عافیہ کے بارے میں اگرچہ بار بار ہم بھی لکھ چکے اور دوسرے اخبارات میں بہت سے لوگ لکھ چکے لیکن سو سنار کی ایک لوہار کی، کے مصداق الیکٹرونک میڈیا پر ایک بڑا جھوٹ ساری درست باتوں کو چھپا دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ترتیب وار ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔ سب سے پہلی غلط فہمی یہی ہے کہ عافیہ امریکی ہے یا اس نے گرین کارڈ کے لیے درخواست دی تھی، اس نے کوئی درخواست بھی نہیں دی اور گمشدگی کے وقت اس کے پاسپورٹ کراچی میں اس کے گھر میں تھے۔ یہ پاسپورٹ بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ عافیہ کو امریکا تک غیر قانونی طریقے سے لے جایا گیا۔ عافیہ کے بارے میں، اس کی تعلیم کے حوالے سے غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے، اس نے تعلیم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کیا تھا لیکن بار بار نیوکلیئر فزکس اور سائنس کے حوالے سے افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ اسی طرح عافیہ کے خلاف مقدمے کے جھوٹا اور غلط ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ خود امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے اس کا اعتراف کیا کہ مقدمہ جھوٹا، بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے بھی اس مقدمے کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا بلکہ یہ تک کہا کہ اگر کوئی مقدمہ بنتا تو اسے افغانستان میں چلنا چاہیے تھا لیکن اس سے قبل یہ دیکھا جانا چاہیے تھا کہ عافیہ کراچی سے افغانستان کیسے پہنچی، اس کے بچے کس طرح اس کے ساتھ گئے۔ اگر اسے اغوا کیا گیا تھا تو مقدمہ سرے سے غلط ہے۔ اب قیدی پر امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام وہ بھی عافیہ جیسی لڑکی پر بالکل مضحکہ خیز الزام تھا۔ اس الزام کو درست ثابت کرنے کے لیے اس کی این سی سی ٹریننگ کا سرٹیفکیٹ تلاش کرلیا گیا۔ عافیہ کی سزا کو بڑھانے کے لیے اس کے سابق شوہر کے بیان کا سہارا لیا گیا کہ اس نے عافیہ کو پاکستان میں رکشے میں دیکھا تھا۔ عافیہ کی جعلی دوسری شادی کی بنیاد پر بھی سزا میں اضافہ کیا گیا۔ غرض ہر طرح سے امریکی عدالتی نظام اور نظام انصاف تباہ ہوگیا ہے لیکن پاکستانی ضمیر کو کیا ہوگیا ہے۔ عمران خان یوان ریڈلی کے ساتھ پریس کانفرنس میں بیٹھ کر عافیہ کے بارے میں انکشاف کے بعد سے لاپتا ہوگئے۔ جتنا مجمع نواز شریف کو اربوں کھربوں روپے کی کرپشن پر گھر بھیجنے کے لیے جمع کرتے رہے اس کا نصف بھی عافیہ کو عافیت سے گھر لانے کے لیے جمع کرلیتے تو عافیہ گھر میں ہوتی لیکن حکمرانوں، فوج، سیاسی رہنماؤں کسی کی ترجیح یہ نہیں، میڈیا صرف ڈالر دیکھتا ہے جو میڈیا موثر ہوسکتا ہے وہ عافیہ کے لیے لاکھ ہمدردیوں کے باوجود پاناما جیسی مہم نہیں چلاتا۔



پاکستانی حکمرانوں نے قصداً عافیہ کو جیل کی تاریک کوٹھڑی میں رکھا ہوا ہے، ورنہ پاکستان کے وزیر خارجہ، وزیراعظم یا صدر مملکت (یہ سب وعدے کرکے مکر چکے) چاہتے تو ایک خط امریکی صدر اوباما کو لکھتے، وہ جاتے جاتے عافیہ کی سزا ختم کرکے اسے پاکستان بھیجنے کا اختیار رکھتے تھے اور وہ یہ کرنا بھی چاہتے تھے لیکن طارق فاطمی اپنے مسائل کی وجہ سے کچھ اور کر آئے۔ پاکستانی حکمرانوں کو ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے وقت عافیہ کی رہائی کا موقع ملا تھا لیکن اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا گیا کیوں کہ یہ حکمران عافیہ کو لانا ہی نہیں چاہتے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے حوالے سے بار بار خبریں آئیں لیکن یہ سودا نہیں ہوسکا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران شکیل آفریدی کو بھی مفت میں دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ وہ عافیہ کو لانا ہی نہیں چاہتے۔ موازنہ تو نہیں کرنا چاہیے لیکن گزشتہ دنوں ہمارے حکمرانوں کو برما کی فکر ہوئی تھی تو اس وقت عافیہ کیوں یاد نہیں آئی، اور اب برما اور عافیہ دونوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ یہ پاکستان سے باہر جاتے ہوئے وعدہ کرتے ہیں کہ عافیہ کو ہم رہا کرائیں گے، ہماری بیٹی ہے، اور وہاں جا کر اس موضوع پر بات تک نہیں کرتے۔ میاں نواز شریف تو بار بار یہ کرچکے اب شاہد خاقان عباسی بھی یہی کریں گے۔ صدر ممنون حسین نے پہلا ایگزیکٹو آرڈر عافیہ کی رہائی کا جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن صدر بننے کے بعد انہیں پتا چلا ہوگا کہ ایوان اقتدار میں ایگزیکٹو بھی امریکی ہے اور آرڈر بھی امریکی۔ آج کل پاکستانی حکومت اور امریکی حکومت کے درمیان تعلقات سرد بلکہ تلخ ہونے کا تاثر دیا جارہا ہے لیکن یہ تاثر بھی صرف پاکستان میں دیا گیا ہے۔ امریکا میں تو صدر کے بجائے نائب صدر سے ہی ہمارے وزیراعظم ملاقات کر بیٹھے اور خوش ہیں۔ جذباتی نعرے اور تجزیے ایک طرف لیکن 20 یا 22 کروڑ پاکستانیوں سے سوال ہے کہ اتنی غیرت کا مظاہرہ تو کرو کہ کوئی بھی حکمران ہو، اس سے عافیہ کی واپسی کا مطالبہ تو منوالو، پاناما کے لیے لاکھوں لوگ سڑکوں پر، نواز شریف کے لیے لاکھوں لوگ سڑکوں پر، زرداری اور بھٹو کے نام پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر، لیکن عافیہ کے مسئلے پر خاموش۔ کیا بے حسی اور…..بس…..