تیسرا مقدر؟

268

zc_Nasirمقدر اٹل ہوتے ہیں ان سے فرار ممکن نہیں ایک مقدر وہ ہوتا ہے جو کاتب تقدیر لکھتا ہے دوسرا مقدر وہ ہوتا ہے جو آدمی خود تحریر کرتا ہے مگر اہل پاکستان کا تیسرا مقدر بھی ہوتا ہے اور اسے ہمارے ادارے اور حکمران لکھتے ہیں جسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ کاتب تقدیر کی تحریر میں انسان اپنی کوشش اور جدوجہد سے تبدیلی لاسکتا ہے، آدمی مفلس ہوتا ہے یہ اس کا مقدر ہے مگر محنت اور غربت و افلاس کے خلاف کوشش اور جدوجہد سے خوش حال زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے یہ اس کا دوسرا مقدر ہوتا ہے مگر حکمران اور ادارے جو تقدیر لکھتے ہیں وہ اٹل ہوتی ہے اسے انسان کی جدوجہد اور کاوش تبدیل نہیں کرسکتی۔ اسے لکھنے والا ادارہ ہی بدل سکتا ہے کہ یہ اہل وطن کا تیسرا مقدر ہوتا ہے۔
مسند انصاف پر براجمان شخص کاتب تقدیر کا نائب ہوتا ہے۔ عزت مآب جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں فل بینچ کی طرف سے جاری ایک بیان میں ملزمان کو ضمانت کے معاملے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، بیان میں ماتحت عدالتوں کی طرف سے کمزور شہادتوں اور کمزور دلائل کی بنیاد پر ضمانت نہ دینے پر اپنی تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا ہے۔



فل بینچ کا کہنا ہے کہ قابل ضمانت ملزمان کی ضمانت نہ دینا بہت سے مسائل اور بہت سی پریشانیوں کا سبب بنتا ہے۔ ملزمان اور ان کے خاندان کی پریشانیوں کا باعث بنتا ہے اور جیلوں پر ناروا اور غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے۔ فل بینچ کے جاری بیان کے مطابق ماتحت عدالتیں عدالت عظمیٰ کی گائیڈ لائنز پر عمل درآمد نہیں کرتیں جو ملزمان کے لیے پریشانیوں اور دیگر مسائل کی وجہ بنتا ہے۔ حیرت ہے ملزمان کی کمزور دلائل اور کمزور شہادتوں پر ضمانت نہ ہونے پر عدالت عظمیٰ پریشان ہوگئی۔ سخت تشویش بھی لاحق ہوگئی مگر کمزور دلائل اور کمزور شہادتوں کی بنیاد پر جن ملزمان کو مجرم قرار دے کر مختلف سزائیں سنائی جاتی ہیں اس پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔
ٹرائل کورٹ کے جن فیصلوں کو ہائی کورٹ برقرار رکھتی ہے ان پر غور نہیں کیا جاتا جو ملزمان غربت اور افلاس کے باعث عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرنے کے اہل نہیں ہوتے انہیں پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا جاتا ہے، ان میں سے اکثر سزائیں بھی کمزور دلائل اور کمزور شہادتوں کے باعث ملتی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جن وکلا کی کمزور شہادتیں اور کمزور دلائل کسی بے قصور شخص کو سزا دلاتے ہیں ان کے لائسنس ضبط کیوں نہیں کیے جاتے اور ان سزاؤں کو برقرار رکھنے والے جسٹس صاحبان کو گھر کا راستہ کیوں نہیں دکھایا جاتا۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس پنجاب نے نئی اصلاحات کے نام پر جو ہدایات جاری کی تھیں ان پر عمل درآمد 5 ستمبر سے ہوچکا ہے مگر جلد مقدمات نمٹانے کے لیے جو ہدایت فرمائی تھی اس پر غور کرنا سول ججوں نے گوارا ہی نہیں کیا۔ پیشیاں اب بھی کئی کئی ماہ کی دی جارہی ہیں البتہ عدالتی اہلکاروں کی یونی فارم کے لیے جو ہدایت جاری کی گئی تھی اس پر فوراً حرف بہ حرف عمل کیا گیا ہے۔