حکومت کا اختیار؟

212

Edarti LOHوزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کو سامنے لانا ہے تو 1960ء کے بعد بننے والے تمام کمیشنز کی رپورٹوں کو سامنے لایا جائے۔ موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عدالت کے واضح حکم کے باوجود کمیشن کی رپورٹ شائع کرنا حکومت کا اختیار ہے۔ غنیمت ہے کہ طلال چودھری 1960ء تک ہی رہ گئے ورنہ تو وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ قیام پاکستان سے پہلے جو کمیشنز بنائے گئے ان کی رپورٹیں بھی سامنے لاؤ۔ لیکن اس آنا کانی سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمے دار کون ہیں ۔ اگر گولیاں برسا کر نہتے عوام کو قتل کردینا حکومت کا اختیار ہے تو مجرموں پر پردہ ڈالنا بھی حکومت ہی کا اختیار ہے۔ اور حکومت بہت با اختیار ہے، اتنی کہ عدالتوں کے حکم سے انحراف کرے، بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ عدالت کا ہر فیصلہ تسلیم کریں گے ۔اور جب فیصلہ آجائے تو اس کا مضحکہ اڑایا جائے، اسے نا انصافی اور سازش قرار دیا جائے، حتیٰ کہ ججوں پر بھی سازش میں شامل ہونے کا الزام لگادیا جائے۔



یقیناًیہ سب حکومت کا اختیار ہے۔ جہاں تک یہ مطالبہ کہ 1960ء کے بعد بننے والے تمام کمیشنوں کی رپورٹ سامنے لائی جائے تو طلال چودھری خود یہ کام شروع کردیں اور اس کا آغاز جسٹس نجفی کمیشن کی رپورٹ سے کریں، کیا ضروری ہے کہ پہلے 1960ء کی رپورٹیں کھنگالی جائیں۔ طلال چودھری نواز شریف کے ان جانثاروں میں شامل ہیں جو پاناما مقدمے میں بڑھ چڑھ کر نواز شریف کی حمایت کرتے رہے۔ اب تو انہیں وزارت مل گئی ہے۔ وفاداری کا صلہ پانے کے بعد تو اب وہ کچھ بھی کہہ اور کر سکتے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ جس عدالت نے ساکھ مجروح ہونے کی بات کی تھی وہ اپنی ساکھ کو حکمرانوں سے کیسے بچائے گی۔