بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر کواللہ تعالی نے بطور معجزہ ایسی زنجیر عطاکی تھی کہ جواس زنجیر کو پکڑکر جھوٹ بولتازنجیر اسے پکڑلیتی۔زنجیر ایک حجرے کی چھت سے لٹکی رہتی۔اس دور میں ایک واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ کسی شخص نے قیمتی موتیوں کی مالا اپنے دوست کے پاس رکھوائی اور سفر پر چلاگیا۔مدت بعدوہ شخص واپس آیا تو دوست سے ہار کی واپسی کا تقاضا کیا۔ابتدا میں تو دوست نے صاف انکار کردیاکہ اس کے پاس کوئی ہار رکھوایا گیا تھا۔بہت اصرار پراس نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے پاس ہار رکھوایا تو گیاتھا لیکن اس نے واپس کردیا تھا۔معاملہ وقت کے نبی کے پاس پہنچا۔فریقین کوزنجیر والے حجرے میں پہنچا دیا گیا۔پورا شہر حقیقت جاننے کے لیے امڈ آیا۔مدعی نے زنجیر پکڑی اور کہا میں اللہ کوحاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کے میں نے اپنے دوست کے پاس ہار بطور امانت رکھوایا تھا۔زنجیر نے مدعی کو نہ پکڑا۔وہ دعوے میں سچا ثابت ہوگیا اور آکر لوگوں کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ایک بوڑھا لاٹھی ٹیکتا آیا۔یہ وہی شخص تھا جس کے پاس ہار رکھوایا گیا تھا۔اس نے لاٹھی دوست کو تھمائی۔زنجیر پکڑی اور کہا ’’ہار میرے پاس رکھوایا تو گیا تھا لیکن میں نے واپس کردیا تھا۔‘‘زنجیر نے اسے بھی نہ پکڑا۔وہ مجمع میں واپس آیا۔دوست سے لاٹھی لی اور ٹیکتا ہوآہستہ قدموں واپس چلا گیا۔لوگوں میں شور مچ گیا۔ انھیں یقین تھاکہ ملزم نے جھوٹ بولا ہے۔پھر زنجیر نے اسے پکڑا کیوں نہیں؟۔
اگر دونوں سچ بول رہے ہیں تو ہار کہاں گیا۔وقت کے نبی کے پاس صدا آتی ہے۔ملزم نے چالاکی سے زنجیر کو دھوکا دیا ہے۔ہار اس لاٹھی میں تھا جو اندر سے کھوکھلی تھی۔وہ مدعی کو لاٹھی تھماکر قسم کھانے چلاگیا۔جب وہ یہ کہہ رہا تھا کہ ہار اس نے مدعی کو واپس کردیا ہے تو وہ تیکنیکی طور پر درست کہہ رہا تھا کیونکہ اس وقت ہار مدعی کے پاس موجود تھا۔قسم کھا کر ملزم دوبارہ ہار سمیت لاٹھی لے واپس چلا گیا۔قصے میں سبق یہ ہے کہ جن کو حرام کھانے کی عادت پڑ جائے وہ بچنے کے راستے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔
پاکستان میں آصف علی زرداری اور نواز شریف دونوں کی بابت لوگوں کو یقین ہے کہ ان کے پاس دولت کی وادیاں بددیانتی کے جزائر ہیں۔لیکن دونوں زنجیر عدل کو بہ تمام و کمال دھوکا دینے میں کامیاب ہیں۔آصف علی زرداری کے بارے میں مشہور ہے کہ ان سے ہاتھ ملانے والے کو واپسی میں انگلیاں گن لینی چا ہییں کہ پوری بھی ہیں یا نہیں۔لیکن وہ قومی احتساب بیورو سے تمام مقدمات میں کلیئر ہیں۔گزشتہ ماہ26اگست وہ آخری نیب کیس سے بھی بری ہوگئے۔زنجیر کو دھوکا دینے کا طریقہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ عدلیہ سے لڑتا نہیں بلکہ ان کے ساتھ بھاگتا ہوں جب تک وہ تھک نہ جائیں۔نواز شریف کی لاٹھی ان کا کاروبارتھا جو ان کی تمام کرپشن کو اپنے اندر سمو لیتا تھا۔ایک عدالت سے دوسری عدالت ان کے مقدمات گھومتے رہتے۔ان کا اور ان کے کاروبار کا بال بیکا نہ ہوتا۔حدیبیہ پیپر ملز کیس 23برس سے ان کے تعاقب میں ہے۔لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے یہ مقدمہ ان کے حق میں خارج ہوچکا۔اب پھر یہ مقدمہ عدالت عظمیٰ کے حکم سے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔بری ہوگئے تو فتح،ہار گئے تو پاناما کیس کی طرح اسے بھی کوئی موڑ دے دیا جائے گا۔انتقامی کاروائی کا آپشن تو کہیں نہیں گیا۔اس صورت میں زرداری صاحب کی طرح نواز شریف بھی ولی اللہ ثابت ہوجائیں گے۔یہ جمہوری سسٹم زرداری اور نواز شریف کونہ صرف سپورٹ کرتا ہے بلکہ ان کی پناہ گاہ بھی ہے۔جیت گئے تو کیا کہنے ہار گئے تو سیاسی انتقام۔ پھر مظلوم بننے سے انھیں روک سکتے ہو تو کوئی روک کر دکھائے۔
کرپشن اس سسٹم کا لازمی جزو ہے۔یہ سسٹم نہ صرف خود کرپشن کو فروغ دیتا ہے بلکہ کرپشن کے ملزمان کو پناہ بھی مہیا کرتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ یہ معاشرے کو تقسیم در تقسیم بھی کررہا ہے۔ نفرت اور تصادم اس نظام کی دین ہی نہیں اس کی شناخت بھی ہیں۔نفرت اور تصادم کی سیاست ملک کو ایک ایسی دلدل کی طرف دھکیل رہی ہے جس کی اتھاہ گہرائی سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔عمران خان کی ہمہ وقت مخالفین کو گالیاں بکنا،توہین اور تضحیک کرنا نہ اچھی سیا سی حکمت عملی ہے اور نہ معاشرے کے لیے سود مند۔حلقہ این اے 120میں دشمنی اور تقسیم کی لکیریں جتنی گہریں ہوئی ہیں وہ زندگی کو مزید ابتر اور تکلیف دہ بنادیں گی۔سیاست کی بدتمیزی،گالم گلوچ جس تیز رفتار فعالیت کا مظاہرہ کررہی ہے اس کا اگلا مرحلہ خون کا بہنا ہی باقی رہ گیا ہے۔اس ضمنی الیکشن کی ایک انتہائی تکلیف دہ بات فوج اور خفیہ اداروں کا کردار ہے جو بڑی شدت سے زیر بحث آیا ہے۔این اے120کے نتائج پر کوئی تجزیہ،کوئی رپورٹ کوئی پروگرام نہیں جس میں اس باب پر کلام نہ کیا گیا ہو۔مسلم لیگ ن نے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کی نشاندھی کی ہے بلکہ ان کا نقشہ بھی کھینچا ہے جو اس کے کارکنان کے اغوامیں ملوث تھے۔یہ ملک کے سب سے محترم ادارے کی ساکھ اور عزت کی بات ہے۔یقیناًاس پر ایکشن لیا جانا چاہیے بلکہ اس کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور خفیہ ادارے عوامی خواہش اور آرزو کی راہ میں حائل ہیں۔کیا واقعی؟
حلقہ 120کے ضمنی الیکشن کا ایک حیرت انگیزپہلو حافظ سعید کی جماعت کا انتخابی میدان میں اتارا جاناتھا۔تاثر یہ دینا مقصود تھا کہ جو جماعت بھارت سے نفرت کی علامت اور جہادکشمیر کی نمائندہ ہے وہ اس بناپر انتخابی اکھاڑے میں کودی ہے کہ نواز شریف بھارت کے دوست ہیں۔اس بناپربھارت سے جہاد کرنے والا گروپ ان سے نفرت کرتا ہے اور مقابلے کے لیے میدان میں آیا ہے۔نواز شریف کے لیے ممتاز قادری کی پھانسی سے پیدا ہونے والی نفرت کوبھی عملی شکل دے دی گئی۔اس قسم کے واقعات کی بنا پر جماعتیں تشکیل پا نے کی روایت چل پڑی تو معاشرے کی تقسیم کہاں جاکر رکے گی اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔
یہ نظام کرپٹ اور بددیانت قومی مجرموں کو معصوم ومظلوم بننے کے مواقع مہیا کرتا ہے بلکہ انھیں مزید طاقتور بناتا ہے۔پس پردہ رہ کر آج بھی نواز شریف ہی حکومت کررہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ نتائج کی ناکامی کی ذمے داری سے بری الذمہ۔اگر انھیں جیل ہو تی ہے تو یہ ان کی طاقت میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی جیسی قومی جماعتوں کا ان ضمنی الیکشن میں جو حشر ہوا وہ ایک الگ المیہ ہے۔پیپلز پارٹی تو خیر لیکن دینی جماعتوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا اس نظام میں رہ کران کے لیے کسی منزل کا حصول ممکن ہے۔وہ نظام جو انھیں بڑے سلیقے اور آہستگی سے کنارے لگا رہا ہے اور ڈیپارچر لاؤنج تک لے آیا ہے۔