سرینگر (اے پی پی+صباح نیوز)مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے سرینگر میں تاجروں اور ٹرانسپوٹروں کو طاقت کے وحشیانہ استعمال کا نشانہ بنایا اور متعدد کو گرفتار کرلیا۔ حالات اس وقت سنگین ہوئے جب تاجر اور ٹرانسپوٹرز نے اپنے حقوق کے لیے گپکار میں واقع کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف مارچ کرنا چاہتے تھے۔ بھارتی پولیس نے طاقت کے وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں درجنوں مظاہرین زخمی ہوگئے۔ پولیس نے اس موقع پر متعدد تاجروں اور ٹرانسپوٹروں کو گرفتار بھی کرلیا۔ادھر ضلع کپواڑہ کے ایک نوجوان کو بھارتی پولیس گرفتار کر کے لے گئی تھی جس
کے بعد نوجوان کا کچھ پتا نہیں چلا۔ اہل خانہ کو بھی یہیں بتایا گیا کہ نوجوان پولیس کی حراست میں نہیں ہے۔ جبکہ نوجوان کے ساتھ گرفتار شخص کا کہنا ہے کہ منظور احمد کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد دوسری جگہ منتقل کیا گیا تھا۔ دوسری جانب بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے کشمیریوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تاجر تنظیموں کے اتحادکشمیر اکنامک الائنس کے صدر محمد یاسین خان کو پوچھ گچھ کے لیے نئی دہلی طلب کیا ہے۔ این آئی اے نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے فرزند ڈاکٹر نسیم گیلانی کو پوچھ گچھ کے لیے تیسری بار نئی دلی بلایا ہے۔ کشمیر میڈیا سیل کے مطابق غیر قانونی طلبی کا مقصد کشمیری رہنماؤں کو ہراساں کرنا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چےئرمین سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارتی تحقیقاتی ادارہ این آئی اے سیاسی قیادت کی ساکھ بگاڑنے کی کوشش کررہا ہے، رہنماؤں اور نوجوانوں کا لہو بہانے اورٹی وی چینلوں پر کشمیریوں کی تذلیل کا سلسلہ جاری ہے، ایسے ماحول میں کوئی مذاکراتی عمل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا ۔ سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس کی مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم روز اول سے مذاکرات کے حق میں ہیں، مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی تمام تر ذمے داری بھارتی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔