ڈاکٹر شجاع صغیر خان
میں نے ہمیشہ سچ لکھا ہے اور سچ کا ساتھ دیا ہے جس بڑے افسر کو خط لکھ دیا اس کا جواب مجھے ہمیشہ موصول ہوا۔ میں نے ہمیشہ پولیس کی خامیوں پر کالم تحریر کیے وہ خامی جس کا شکار عام آدمی ہے، میں نے ہمیشہ یہ بات تحریر کی ہے کہ مجھے ذاتی طور پر اپنی پولیس سے کوئی شکایت نہیں ہے میں جب بھی کسی ضرورت مند کے کام سے کسی بھی تھانے میں گیا تو وہ موجود ایس ایچ او اور دیگر عملے نے ہمیشہ میرا کام کیا۔ میں تحریک ابن آدم اور قومی استحکام کونسل پاکستان کا سربراہ ہوں اور عوامی مسائل کے حل کے لیے مجھے ہر ادارے کا دورہ کرنا پڑتا ہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے چارج سنبھالتے ہی عوامی مسائل کے حل کے لیے بڑے بڑے فیصلے کیے اور ان پر عمل درآمد بھی کیا۔ انہوں نے سیاسی بنیادوں پر پولیس میں بھرتی پر پابندی لگائی اور کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کی تو سندھ حکومت بے چین ہوگئی۔ وزیر اعلیٰ صاحب کو اُوپر سے بھرتی کے احکامات موصول ہوئے مگر فرض شناس افسر نے سیاسی بھرتی کرنے سے انکار کردیا جو وزیراعلیٰ سندھ کو پسند نہیں آیا انہوں نے اے ڈی خواجہ کے تبادلے کا فیصلہ کیا مگر عدلیہ نے ان کے تبادلے کے احکامات کو ختم کرکے ان کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اے ڈی خواجہ ایک قانون پسند افسر ہیں۔ ماضی میں جو بھی آئی جی آیا وہ یس سر والا تھا مگر اے ڈی خواجہ نے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔
ابھی حال ہی میں انہوں نے لینڈ مافیا، گٹکا مافیا کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز کردیا۔ ملیر، لانڈھی، کورنگی، اورنگی، نیو کراچی اور اندرون سندھ گٹکا فروخت ہورہا تھا اور ہر تمام کام علاقائی پولیس کی نگرانی میں چل رہا تھا، ملیر میں ایک خاتون کافی عرصے سے طرح طرح کا گٹکا فروخت کرکے اپنا گزارہ کررہی تھیں میں نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے آج کل آپ کی دکان زیادہ تر بند رہتی ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ اے ڈی خواجہ نام کا کوئی سخت افسر آیا ہے اس نے گٹکے کی فروخت پر پابندی لگائی ہے، مگر بابو بھائی گٹکے والے نے بتایا ہے کہ آج ہمارے علاقے کے ایس ایچ او سے ملاقات ہے یہ ریٹ بڑھانے کے لیے کہہ رہا ہے جب کہ کئی ہزار روپے بھتا روزانہ کی بنیاد پر تھانے والے لیتے ہیں تو میں نے ان خاتون سے کہا کہ یاد رکھو جب تک اے ڈی خواجہ صاحب آئی جی ہیں کسی ایس ایچ او کی ہمت نہیں کہ وہ اپنے علاقے میں گٹکے کی فروخت جاری کروا دے تو وہ خاتون کہنے لگی کہ برسوں سے میں یہ دیکھ رہی ہوں اگر کوئی ایماندار افسر آ بھی جاتا ہے تو وہ زیادہ دن ایماندار نہیں رہتا، اس کو جب مال ملتا ہے تو وہ بھی پرانے افسر کے نقش قدم پر چل پڑتا ہے۔ میں نے کہا میں بھی یہاں ہوں اور آپ بھی اگر اے ڈی خواجہ کے ہوتے ہوئے اگر آپ نے گٹکا فروخت کردیا تو میں آپ کو 1000 روپے انعام دوں گا۔ اے ڈی خواجہ نے انسانیت پر ایک عظیم احسان کیا ہے، صوبے کا نوجوان موت کے منہ میں جارہا تھا مگر انہوں نے بروقت کارروائی کرکے وطن کے نوجوانوں کو موت کے منہ سے نکالنے کا جو کام کیا ہے اس پر میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان کی ہمت اور حوصلے کے لیے دعاگو ہوں۔