جب مقام بی بی فاطمہؓ کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے اقبال کا واقعہ یاد آجاتا ہے کہ جب اقبال نے اپنے استاد شمس الحسن کا نام شمس العلماء کے خطاب کے لیے پیش کیا تو کمیٹی کے ارکان نے پوچھا کہ ان کی تصنیف کیا ہے؟ اقبال نے فرمایا ’’میں ہوں ان کی تصنیف‘‘۔
آپؓ اگر سیّدنا محمدؐ عربی کی بیٹی سیّدنا علیؓ کی بیوی، خاتون جنت چھوڑ بھی دیں تو کربلا میں کھڑے سیدنا حسینؓ بی بی فاطمہؓ کے کردار کا تعین کرتے نظر آئیں گے کہ ’’میں ہوں ان کی تصنیف‘‘۔ آج پاکستان کے تمام شہروں میں غیر ملکی خشبوؤں سے معطر الٹرا ماڈرن خواتین آزادی نسواں کے سیمینار کرتی ہیں، عورت کے حقوق، عورت کی آزادی اور عورت کی برابری کے لیے نعرے لگائے جاتے ہیں، پاکستان کی عورتوں کی مظلومیت ثابت کرنے کے لیے مغربی میڈیا کے حوالے دیے جاتے ہیں، یہ ملک جو غربت کے 127 ویں نمبر پر ہے جس میں آٹھ کروڑ سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس کا تقابل یورپ کی عورت سے کیا جائے گا اور سارے ہال میں کوئی ایک خاتون بھی بی بی فاطمہؓ کا ذکر نہیں کرے گی، جو بچی تھیں تو اپنے دور کے سب سے بڑے انسان کے زخم دھوتیں، لڑکی تھیں تو اپنے دور کے سب سے بڑے شجاع کو ذرہ پہناتی تھیں اور خاتون تھیں تو تاریخ کے سب سے بڑے شہید کی پرورش کرتی تھیں اور جس نے زندگی بھر معاشرے سے کچھ نہیں لیا، صرف دیا۔ افسوس کہ میڈونا اور الزبتھ ٹیلر جیسی زندگی کی خواہش مند عورتیں یہ بھول گئیں کہ ان کی تاریخ میں ایک سیدہ فاطمہؓ بھی تھیں۔
نورالعین، سرجانی