بے نظیر قتل، اب لکیر نہ پیٹیں

291

پاکستان کے حکمران اپنی ہی قوم کو جس طرح بے وقوف بناتے ہیں وہ نہایت افسوسناک ہے اور اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ قوم سب کچھ جانتے ہوئے بے وقوف بن رہی ہے۔ ایک بار پھر سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا ڈراما چل رہا ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما بشمول چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سابق ڈکٹیٹر حکمران جنرل پرویز مشرف کے خلاف محاذ بنائے بیٹھے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کہتے ہیں کہ مشرف بے نظیر کا قاتل ہے، عیاشیاں کررہاہے۔ سابق صدر نے جمہوریت اور آئین کا بھی قتل کیا، دلیر ہیں تو عدالتوں کا سامنا کریں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہہ رہے ہیں کہ پرویز مشرف شیر ہیں تو پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا کریں، بے نظیر کی طرح گولی کھائیں، زرداری کی جیل جائیں۔ باتیں تو اس سے بھی بڑھ کر کی جارہی ہیں اور دوسری طرف سے بھی خاموشی نہیں ہے۔ وہاں سے بھی ویڈیو بیانات دیے جارہے ہیں۔ ان بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ہی ٹھیک کررہی ہیں لیکن بیک وقت دو موقف کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے یہاں بھی یہی مسئلہ ہے بلکہ اگر دونوں کی باتوں کو ایک جگہ رکھا جائے تو دونوں ہی قابل گرفت ہیں



۔ جنرل پرویز مشرف اپنے ویڈیو بیان میں کہتے ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر کا قاتل ایک ہی ہے۔ بے نظیر کو گاڑی سے سر نکال کر کھڑے ہونے کو کس نے فون کرکے کہا تھا۔ آخری فون کال کس کی تھی اور وہ آصف زرداری کو قاتل کہہ رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف سے پوچھا جانا چاہیے کہ یہ بات آپ کے علم میں آج تو نہیں آئی ہوگی۔ آپ اس وقت حکمران تھے، آپ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ مرتضیٰ بھٹو کو کس نے اور کیوں قتل کروایا۔ پھر آپ ملک میں سارا گند صاف کررہے تھے تو مرتضیٰ کے قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا۔ اسی طرح 27 دسمبر کو بے نظیر کے قتل کے ساتھ ہی جنرل مشرف ہی کو قتل سمجھا جارہاتھا۔ کیا جنرل پرویز کی حکومت ایجنسیوں اور اداروں کو پتا نہیں تھا کہ بے نظیر کو کس نے قتل کیا۔ اس ٹیلی فون کال والی بات کا آج کیوں ذکر کررہے ہیں، کیا آج کسی نے بتایاہے؟؟ ظاہر ہے ان کو یہ اس وقت بھی معلوم تھا اور ایک حکمران کو اگر یہ معلوم ہو کہ اس کے دور میں دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی سیاسی رہنما کو قتل کس نے کیا ہے اور وہ اس راز کو چھپالے تو پھر وہ بھی اتنا ہی مجرم سمجھا جائے گا جتنا کہ قتل کرنے والا۔ بات صرف جنرل پرویز کی نہیں ہے۔ آصف زرداری صاحب اور خورشید شاہ صاحب کی پارٹی نے جنرل پرویز سے اقتدار وصول کیا، آصف زرداری صاحب نے جنرل پرویز سے ایوان صدر حاصل کیا، پوری پارٹی نے جنرل پرویز کو گارڈ آف آنر دے کر ملک سے رخصت کیا۔ اب کیا منظور وسان صاحب نے خواب میں دیکھا کہ جنرل پرویز مشرف بے نظیر کا قاتل ہے



۔ اب اسے قاتل کیوں کہا جارہاہے، جب جنرل پرویز ملک میں موجود تھے اس وقت ان کے خلاف کوئی اقدام کیوں نہیں کیا گیا۔ میاں نواز شریف نے تو جنرل پرویز کے خلاف مقدمہ عدالتوں میں چلوادیا یہ اور بات ہے کہ اس کے ذریعے سابق ڈکٹیٹر کو ملک سے فرار ہونے میں مدد دی گئی۔ وزیر داخلہ چودھری نثار اتنے لاعلم بن گئی کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ جنرل پرویز کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ ہیں۔ وہ بھی بعد میں لکیر پیٹنے لگے کہ عدالت نے جنرل پرویز کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ چودھری نثار کا ذکر آیا تو ان کے اپنے رویے بھی وہی ہیں جو پیپلزپارٹی کے ہیں۔ مسلم لیگ کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ اپنا گھر صاف کرنے کی ضرورت ہے تو چودھری نثار نے درست سوال اٹھایا کہ ایسا کام پہلے چار سال میں کیوں نہیں کیا۔ یعنی وہ بھی لکیر ہی پیٹ رہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے لیے یہ بات بڑی آسان ہے کہ کسی بھی سانحے کا اہتمام اور انتظام کرتے ہیں اور اس کے گزرنے کے بعد لکیر پیٹتے ہیں۔ اگر زرداری قاتل ہیں تو جنرل پرویز نے ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی، کوئی مقدمہ کیوں درج نہیں ہوسکا۔ پھر اقتدار زرداری صاحب ہی کو کیوں دے کر گئے۔خورشید شاہ صاحب بھی فرمائیں اور رحمان ملک صاحب بھی بتائیں کہ قاتل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر کیوں دیا گیا۔ آج سب سے زور دار بیان چیئرمین سینیٹ کا ہے کہ مشرف بے نظیر کا قاتل ہے، عیاشیاں کررہاہے تو جناب اس کی عیاشیائیوں کا اہتمام پیپلزپارٹی ہی نے تو کیا ہے۔ خواجہ آصف ہوں، چودھری نثار ہوں یا زرداری، خورشید شاہ اور مشرف صاحبان ان سب کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے اب لکیر نہ پیٹیں۔ باقی رہے پاکستانی عوام تو ان کو عادت ہوگئی ہے جھوٹ سننے اور اس کی بنیاد پر بے وقوف بننے کی۔