خوش کن خبروں کو ترستی کنٹرول لائن

288

پاک بھارت کشیدہ ماحول میں کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن کے حوالے سے بیک وقت کئی خبروں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں کوئی خبر خوش کن نہیں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ آزادکشمیر حکومت نے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان کی صدارت میں منعقد ہونے والے ایک اہم اجلاس میں کنٹرول لائن کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی فیصلے کیے ہیں۔ جن میں شہدا اور زخمیوں کے معاوضے میں اضافہ، شہداء کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین، کنٹرول لائن کے قریب تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل کو یقینی بنانا، رورل ہیلتھ سینٹرز پر عملہ کی ہمہ وقت موجودگی اور ان سینٹرز کو ایمبولینسز کی فراہمی، محکمہ صحت اور دوسرے محکموں کی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں سے رابطوں کو بڑھانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ کنٹرول لائن سے جڑی دوسری خبر راولا کوٹ حویلی سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ کے باعث عوام کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور محفوظ علاقوں کی جانب منتقلی ہے جب کہ تیسری اہم خبر یہ ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ فوج کو مجاہدین کے تعاقب میں کنٹرول لائن عبور کرنے کی اجازت ہے۔ بھارت نے الزام لگایا ہے کہ دوسو تازد م مسلح افراد آزادکشمیر میں کنٹرول لائن عبور کرنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور ان افراد کے کیمپ پر حملہ بھارتی فوج کا اختیار اور حق ہے۔ کنٹرول لائن کے ساتھ براہ راست جڑی ہوئی ان خبروں کے ساتھ ہی بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ سرحد پار دراندازی ختم کیے بغیر پاکستان کے ساتھ مذاکرات بے معنی ہوں گے۔ کچھ دن پہلے بھارت کے ایک جرنیل نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں کیوں کہ پاکستان کی حکمران کلاس، سیاست دان، فوج اور عوام میں یہ تاثر نیچے تک سرایت کررہا ہے کہ



بھارت اسے نقصان پہنچانے اور توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ وہ حالات ہیں جن میں کنٹرول لائن کی اسٹرٹیجک اہمیت دوچند ہو رہی ہے۔ بھارت ایک منظم منصوبے کے تحت کنٹرول لائن کو گرم رکھے ہوئے ہے۔ بھارت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اربوں روپے کی لاگت سے بھارت نے جدید ترین آلات اور حساس نظام کی حامل طویل باڑھ اس دعوے کے ساتھ لگائی تھی کہ اس کے بعد آمدورفت کا سلسلہ کلی طور پر ختم ہوجائے گا اس پرت در پرت باڑھ کی موجودگی میں اب دراندازی کیسے ہو رہی ہے؟ بھارت بین الاقوامی سرحد پر بوجوہ وہ کھیل نہیں کھیل سکتا جو کنٹرول لائن پر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ ایک متنازع علاقہ ہونے کی وجہ سے بھارت اس علاقے پر اپنا حق جتلاتا ہے جب کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں اور معاہدہ کراچی کے تحت اس علاقے کا بھرپور جغرافیائی دفاع کرنے کا پابند ہے۔ اس طرح کنٹرول لائن پر دو طرفہ مسلح تصادم اور جنگ کا نقطہ آغاز بننے کے اسباب ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔بھارت جب کشمیر کے اندر عوامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو پھر وہ کبھی کنٹرول لائن گرم کرتا ہے اور کبھی گرم تعاقب اورسرجیکل اسٹرائیکس کے خواب دیکھنے لگتا ہے گزشتہ برس نکیال سیکٹر میں سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کیا گیا تھا مگر اس کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں جا سکا۔ بعد میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ بالی ووڈ کی فلم کی طرح ایک وڈیو جنگل میں بنا کر اسے سرجیکل اسٹرائیکس کا نام دیا گیا تھا۔ بھارت کی سازشوں اور منصوبوں کی بات اپنی جگہ مگر کنٹرول لائن پر چوکس اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ جنگیں صرف فوجی ساز وسامان سے نہیں لڑی جا سکتیں۔ جنگوں میں مقامی آبادی کا تعاون بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مقامی آبادی سے تعاون کا مناسب طریقہ یہی ہوتا ہے کہ ان کو مسائل کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔ انہیں مطمئن اور آسودہ رکھا جائے۔ یہ اطمینان انہیں یکسو رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے وفاقی اور آزادکشمیر دونوں حکومتوں کو کنٹرول لائن کے عوام جو ملک کے دفاع میں سیکنڈ ڈیفنس لائن کا کردار ادا کرتے ہیں، کے مسائل اور مطالبات کو کسی تاخیر کے بغیر حل کرنا چاہیے۔
کنٹرول لائن کے حوالے سے ناخوش گوار خبروں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ مظفر آباد سے سری نگر جانے والے ایک اور ٹرک سے منشیات کی بہت بڑی کھیپ ضبط کر نے کا واقعہ سامنے آیا۔ 51,700 کلوگرام ہیروئن کے 352پیکٹ کارپٹ کے رول میں چھپائے گئے تھے۔ اس ہیروئن کی مالیت کروڑوں روپے بیان کی جاتی ہے

۔ یہ تو خیریت گزری کی منشیات کی یہ کھیپ کنٹرول لائن عبور کرنے سے پہلے ہی نظروں میں آگئی وگرنہ ڈرائیور کی صورت میں آزادکشمیر کے ایک اور شہری کا مقدر سری نگر کی سینٹرل جیل ٹھیرتی ایک اور گھر کی خوشیاں ماند پڑ جاتیں اور معصوم بچوں کا مقدر انتظار ہو کر رہ جاتا۔ مقامی حکام نے ٹرک کی اسکینگ اور انٹری کرنے والے چار افراد کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی ہے اور سری نگر مظفر آباد تجارت ایک بار پھر معطل ہو گئی ہے۔ ماضی میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں مظفر آباد سے جانے والے مال بردار ٹرکوں سے مقبوضہ علاقے کی حدود میں منشیات برآمد کی گئی اور یوں بھارتی حکام نے ٹرک ڈرائیور کر گرفتار کرکے مقدمہ چلانا شروع کر دیا۔ اس وقت ان کیسوں میں آزادکشمیر کے کئی باشندے سری نگر سینٹرل جیل میں مقدمات اور سزا کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ وہ غریب ڈرائیور ہیں جو ٹرک کو کنٹرول لائن عبور کرنے کے عوض ڈیڑھ دو ہزار روپے حاصل کرتے ہیں مگر کبھی کبھار یہ ڈیڑھ ہزار روپے ان کے لیے دان�ۂ دام ثابت ہو کر رہ جاتے ہیں اور یہ ڈرائیور ناکردہ جرم کی سزا بھگتنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ٹرکوں میں ہیروئن کسی اور نے بھری ہوتی ہے مگر کنٹرول لائن ڈرائیور ہی عبور کرتا ہے اور اس طرح سارا الزام اسی پر آجاتا ہے اور یوں گرفتاری اور قید اس کا مقدر ہو کر رہ جاتی ہے۔ تازہ واقعہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ کنٹرول لائن عبور کرنے سے پہلے ہی ٹرک سے منشیات ضبط کر لی گئی جس کے نتیجے میں آزادکشمیر کا ایک شہری عتاب کا شکار ہونے سے بچ گیا۔ سری نگر مظفر تجارت ماضی قریب میں امریکا کے دباؤ پر شروع ہونے والی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی آخری نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس ڈپلومیسی کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت وقت اور کشیدگی کی دھند میں کھو چکی ہے اور



امن عمل کو ریورس گیئرلگ چکا ہے۔ اب امریکی دباؤ کے نتیجے میں چل پڑنے والی امن گاڑی پیچھے کی طرف دوڑ رہی ہے۔
کنٹرول لائن پر تجارت اور آمد ورفت بھی خطرات کے سایوں تلے جاری ہے۔ سری نگر مظفر آباد بس سروس کی افادیت تو خاصی حد تک موجود ہے کہ یہ منقسم خاندانوں کو ملانے کا واحد آسان اور سستا ذریعہ ہے مگر تجارتی عمل اس لحاظ سے بے معنی اور ’’شوقِ فضول‘‘ ہو کر رہ گیا ہے کہ کشمیری تاجروں کے پردے میں لاہور اور دہلی کا تجارتی مافیا کھل کھیل رہا ہے اور وہی اس تجارت کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اس تجارت کا دائرہ پھیلنے اور بڑھنے کے نتیجے میں منشیات کے عالمی سوداگر بھی اپنا اُلو سیدھا کرنے یہاں پہنچ گئے ہیں۔ منشیات کے ان کیسز کے ڈانڈے جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں سے جا ملتے ہیں۔ منشیات کی ہر کھیپ کی حتمی منزل بھی بھارت نہیں بلکہ اس سے آگے کی کوئی دنیا ہوتی ہے۔ اس کھیل میں منشیات فروش مافیا کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا مگر آزادکشمیر اور پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے سری نگر مظفر آباد مال بردار ٹرکوں کی چیکنگ اور اسکینگ کے نظام کو جس قدر ممکن ہو سخت بنانا چاہیے اور اس جرم کے مرتکبین کو کڑی سزا دینی چاہیے کیوں کہ یہ عمل ہماری قومی ساکھ اور عزت کی قیمت پر جاری ہے۔