اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے گجرات شہر سے تھوڑا آگے بڑی سڑک سے موضوع گورالی کو جانے والی ایک چھوٹی سی سڑک نکلتی ہے‘ یہاں سے ایک میل مشرق میں دریائے چناب کے کنارے نت نامی ایک گاؤں ہے اس گاؤں کا وہ قدیم مکان دریا برد ہوچکا ہے جہاں 7 مارچ 1920 کو چودھری سردار خان کے گھر ان کے سب سے چھوٹے بیٹے ظہورالٰہی پیدا ہوئے‘ چودھری سردار خان ان زمینداروں میں شامل تھے جنہیں انگریز دور میں مالیہ کی ادائیگی کی بنیاد پر مرکزی اسمبلی کے لیے ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ چودھری ظہورالٰہی کے دادا حیات خان صاحب دل‘ درویش صفت انسان اور ادبی شخصیت تھے اور ان کے گھر کا دستر خوان انہی کے زمانے سے آج تک وسیع ہے۔ وسیع دستر خوان کی روا
یت سردار خان نے بھی نبھائی‘ ان کے بعد چودھری ظہور الٰہی اور پھر آج تک چودھری شجاعت حسین بھی اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
چودھری ظہور الٰہی ایک سیاسی رہنماء ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی شخصیت بھی تھے اور پنجابی ادب سے انہیں بہت لگاؤ تھا 1950ء میں جب سیلاب کی وجہ سے ان کا گھر دریا برد ہوا تھا اس کے نتیجے میں پنجابی ادب کا بہت سا لٹریچر بھی ضائع ہوا 25 ستمبر 1981ء ظہور الٰہی کا یوم شہادت ہے اس روز انہیں دن دہاڑے فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا تھا آج اس واقعہ کو چھتیس سال گزر چکے ہیں چودھری صاحب کے ایک دوست بشیر چیمہ‘ (ایم این اے طارق بشیر چیمہ کے والد) نے گھر آکر ملاقات کی اور انہیں اطلاع دی تھی کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے اور دھمکی آمیز ٹیلی فون انہیں کیا گیا ہے اور اسی روز انہیں قتل کردیا گیا۔ چودھری ظہورالٰہی پیپلزپارٹی کی طرف دار دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کے کارندوں کا نشانہ بنے تھے۔ چودھری ظہورالٰہی صرف اور صرف پاکستان کے لیے سوچتے تھے اور یہی ان کا قصور تھا حملے کے وقت چودھری صاحب کے ساتھ کار میں سوار لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس (ر) مولوی مشتاق حسین بھی زخمی ہوئے تاہم ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایم اے رحمن بالکل محفوظ رہے‘ یہ تینوں اپنے ایک تاجر دوست محمد امین کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کرکے واپس آرہے تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں ان پر فائرنگ کی گئی۔
چودھری ظہورالٰہی کی شہادت پر پورا ملک سوگوار تھا اور گجرات کی تاریخ میں آج تک ان سے بڑا جنازہ کسی شخصیت کا نہیں ہوا‘ مرحوم کو ان کی والدہ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا جنرل ضیاء الحق سمیت ملک کی تمام سیاسی صحافتی شخصیات نے رنج و غم کا اظہار کیا اور جسارت سمیت ملک کے تمام اخبارات نے اداریے لکھے جسارت نے اسے ایک محب وطن کا قتل قرار دیا بلاشبہ چودھری ظہورالٰہی ایک محب وطن سیاسی رہنماء تھے‘ وہ خدا ترس انسان تھے‘ روایت پسند شخصیت تھے ان کی شہادت کے بعد ایک طویل عرصے تک چودھری شجاعت خاندان کا پیپلزپارٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور چودھری ظہورالٰہی کے قتل کے پس منظر سے واقف ہر سیاسی کارکن کو پختہ یقین تھا کہ چودھری خاندان اوراس جماعت سے تعلق کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا دونوں ایک دوسرے کے لیے شجر ممنوعہ تھے لیکن جب وقت بدلتا ہے تو پرانے نشان مٹ جاتے ہیں پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چودھری ظہورالٰہی کے بھتیجے چودھری پرویزالٰہی پیپلزپارٹی کی حکومت میں اتحادی جماعت کے نمائندے کے طور پر وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے ساتھ نائب وزیر اعظم بنے‘ یہ فیصلہ چودھری خاندان نے کیوں کیا؟ اور دل پر پتھر کیسے رکھا یہ بات آج تک راز ہے اور چودھری شجاعت حسین ہوں یا چودھری پرویزالٰہی دونوں یہ راز آج تک مٹھی میں بند کیے بیٹھے ہیں۔ قرآن کے الفاظ ہیں کہ اللہ مال اور اولاد سے انسان کو آزماتا ہے سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی اپنی اولاد کے ہاتھوں مجبور ہوئے اور آج ملکی سیاست سے ہی بے دخل ہوچکے ہیں چودھری خاندان کو پیپلزپارٹی سے جوڑنے والے کون ہیں؟ یہ راز ظہور پیلس میں بند ہے اس بارے میں خود کچھ کہنے کے بجائے بہتر یہی ہے کہ اس حوالے سے چودھری شجاعت حسین کے لب ہلنے کا انتظار کیا جائے۔
چودھری ظہورالٰہی کی شہادت کے بعد چودھری شجاعت حسین کے الفاظ یہی تھے کہ ’’مسٹر بھٹو کی فاشسٹ پارٹی کے کارندے انہیں اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے‘‘ ذوالفقار علی بھٹو نے جب پیپلزپارٹی بنائی تو چودھری ظہورالٰہی نے اس پارٹی کے فلسفہ کی مخالفت کی وہ سمجھتے تھے کہ اس پارٹی کے قیام سے پاکستان کے بنیادی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچ رہا ہے انہوں نے پارٹی کے نعرہ روٹی کپڑا اور مکان کو نظریاتی طور پر چیلنج کیا بھٹو اس چیلنج سے بہت پریشان تھے۔ 1970 کے عام انتخابات میں پنجاب میں راولپنڈی سے ملتان تک چودھری ظہورالٰہی مسلم لیگ کے دوسرے امیدوار تھے جو پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کامیاب ہوئے قومی اسمبلی میں پہنچے تو انہوں نے 1973 کے آئین کی تشکیل سے لے ختم نبوت سے متعلق آئینی ترمیم تک نہایت متحرک کردار ادا کیا‘ اسمبلی میں بلوچستان کی آواز اٹھائی‘ بلوچستان کا مقدمہ اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے وہ ہر بار اسمبلی میں روئے‘ ستر سالہ بڑھیاکا واقعہ بیان کیا جو جیل میں اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے آئی تھی اور اس کے ہاتھ میں بیٹے کے لیے روٹی کے دوخشک ٹکڑے اور دو گاجریں تھیں‘ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی نہیں اقتصادی ہے جس صوبے کے سردار فرانس سے بنے ہوئے کپڑے پہنتے ہوں اور چار سو ڈالر مالیت کے پرفیوم استعمال کریں وہاں کے مسائل کا حل بھی انہی کے ہاتھ میں ہے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ بلوچ کو اپنا بھائی سمجھو اور ان کے مسائل کا حل تلاش کرو‘ پوری سیاسی زندگی میں پاکستان کے لیے متحرک رہے۔
باقی صفحہ9پر
کبھی پیسے کے پیچھے نہیں بھاگے مسلم لیگ (ق) سمیت کسی مسلم لیگ میں ان جیسا کوئی رہنماء نہیں ہے وہ یو ڈی ایف اور بعد ازاں پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے بھی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے سرگرم عمل رہے قومی اسمبلی میں ان کی تقاریر اگر مسلم لیگ (ق) کی قیادت اپنے کارکنوں میں تقسیم کرے تو یہ ان کی سیاسی تربیت کا بہترین سامان ہوگا لیکن ایسا کرنے سے کارکن مسلم لیگ (ق) کی حالیہ سیاسی ترجیحات سے متعلق سوالات کے انبار اپنی قیادت کے سامنے لگا سکتے ہیں حرف آخر یہ ہے کہ آج ملک میں سیاست بھی ہے اور مسلم لیگ (ق) بھی مگر چودھری ظہورالٰہی جیسی سیاسی بصیرت کہیں نظر نہیں آرہی کاش چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) ملک کے اس قیمتی اثاثے کو اپنانے کے لیے آگے بڑھے۔