سید مودودی اور آج

403

مولانا مودودیؒ کا شمار عصر حاضر کے ان مفکرین میں ہوتا ہے جنہوں نے بطور ایک اجتماعی نظام، اسلام کے تعارف پر توجہ دی اور اس بحث کو علمی تحقیق کا موضوع بنایا اس کے نفاذ کے لیے ایک منظم گروہ معاشرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی اور رائے عامہ کی قوت اور حمایت کے ساتھ اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کی، وہ اسلامی ریاست کے قیام، کو اصل میں حکومت الہیہ کا نام دیتے ہیں یہ بے حد اہم اساسی نوعیت کا معاملہ ہے۔ مولانا کے نزدیک اسلامی ریاست کا قیام اور اس کے لیے کوشش ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے مولانا اسلام کو محض پوجاپاٹ اور پرستش کا مذہب نہیں سمجھتے بلکہ اعتقاد، اخلاقی اقدار اور اس کے لیے متعین احکامات، قوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ تقسیم برصغیرسے قبل موجودہ سیاسی کشکمش کے عنوان سے انہوں نے ترجمان القرآن میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور حالات پر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔
مولانا کی تصانیف میں تفہیم القرآن کے علاوہ دینیات، خلافت و ملوکیت، الجہاد فی السلام، خطبات، سلامتی کا راستہ جیسی کتب رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں، جماعت اسلامی کے حوالے سے بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں قیام پاکستان کے فوراً بعد اس بارے میں بحث بھی شروع ہوئی کہ یہ ملک اسلامی ریاست ہوگا یا سیکولر ریاست کی طرح کام کرے گا اس بحث میں بھی مولانا نے حصہ لیا اور تجزیہ پیش کرتے رہے آخر کا عوامی سطح پر ملنے والی حمایت کے بعد اور دستور ساز اسمبلی میں مولانا شبیر عثمانی کی محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں 1956 کے آئین میں قرآن اور سنت کی بالادستی کے لیے اسلامی شقیں شامل کی گئیں اس موضوع پر ڈاکٹر احمد حسین کمال اور مولانا مودودی کے مابین طویل خط کتابت ہوئی اور بحث یہ تھی کہ کیا اس دستور کو اسلامی دستور قرار دیا جاسکتا ہے جس میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اسمبلی اور صدر مملکت سے اجازت ضروری ہو، مولانا نے ان سوالوں کا خوب جواب دیا اور ان کا موقف تھا کہ ہم اپنی تحریک کسی خلا میں نہیں چلا رہے بلکہ انسانوں کے درمیان رہ کر ہی اپنی تحریک چلا رہے ہیں اور تمام زمینی حقائق سے واقف بھی ہیں ایک کھلی لادینی ریاست کے مقابلے میں نیم دلی کے ساتھ اسلامی نظام کو قبول کرنا زیادہ اچھا ہے اور ایک دن آئے گا رائے عامہ کی قوت کے ساتھ اس ملک میں جب تبدیلی آجائے گی اسی معاشرے میں رہ کر کشکمش کرنا ہوگی اور الگ بیٹھ کر کسی وقت کے انتظار میں رہنا حکمت سے خالی ہے غلبہ دین کی جدوجہد بتدریج ہوئی ہے اور ہوگی، مولانا کہتے ہیں کہ اسلامی نظام زندگی جن لوگوں پر نافذ کرنا ہے اور یہ نظام جن لوگوں کو قائم کرنا ہے اور جن کو یہ نظام چلانا ہے وہ آنکھیں بند کرکے یک بارگی نسخہ استعمال نہیں کر سکتے اور نہ اس معاشرے سے الگ رہ کر کسی اور مقام پر تیاری کریں اور یہاں آکر نظام نافذ کردیں ایسا نہیں ہوسکتا مولانا نے اپنی تحریروں اور بیانات میں یہ نکتہ بھی انداز میں واضح کیا کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین اور قانون کے اندر ہو کسی بھی غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش شرعاً درست نہیں ہوگی مولانا سے اس بارے میں کئی بار سوالات ہوئے تو ہر بار یہی جواب دیا کہ غیر آئینی طریقے دو ہوں گے ایک اعلانیہ اور دوسرا خفیہ، دونوں کے اپنے اپنے نتائج ہیں علانیہ غیر آئینی طریقے سے جو تغیر پیدا ہوگا وہ برا نہیں ہوگا اس طرح کی کوششوں سے قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور جب کسی کو اس راہ پر لگادیں تو پھر سو سال تک بھی اسے قانون کی اطاعت کی طرف نہیں لاسکتے اور اگر خفیہ طور پر غیر آئینی طریقہ اختیار کیا جائے تو یہ خطرناک اور تباہ کن ہوگا یہ کام کسی چند افراد کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے اور پھر ساری مرضی انہی کی چلتی ہے اور تصور کریں کہ اگر یہی چند افراد اقتدار میں آجائیں تو کیا تباہی لائیں گے؟
ایک آمر کے مقابلے میں دوسرا آمر لے آئیں تو قوم کے لیے اس میں خیر کا پہلو کہاں ہے؟ لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں اپنی تحریک اعلانیہ طور پر قانون، اخلاق اور ضابطوں کے اندر رہ چلائیں اور رائے عامہ کی حمایت کی کوشش کی جائے یہی انبیاء کا بھی طریقہ رہا ہے اپنی تحریک کو خفیہ طریقے سے چلائیں گے تو بگاڑ کے سوا کچھ نہیں ملے گا مولانا نے ہمیشہ کہا کہ وہ غیر آئینی اور خفیہ طریقے سے کام کرنے کے سخت خلاف ہیں اور یہ رائے سال ہا سال کے مطالعہ کے بعد بنائی ہے فوری اسلامی انقلاب کے بارے میں جب سوال ہوتا تو فرماتے ہیں کہ اس قسم کی غلط توقعات نہ باندھیں اس سے مایوسی پیدا ہوتی ہے معاشرے کی اصلاح کے لیے جو بس میں ہے اسے کیا جائے اور اصل کام یہی ہے کہ قوم اور نوجوان نسل کو دین کی تعلیمات کی طرف لایا جائے اور یہ یقین رہنا چاہیے کہ اللہ کا نظام ضرور قائم ہوگا اور دین غلبہ پائے گا مولانا تو یہ بات کہا کرتے تھے کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان کو غیر اسلامی ریاست بنانے والے کامیاب بھی ہوجائیں تو بھی جدوجہد کا راستہ ایک تحریک اصلاح برپا کرکے ہی اختیارکیا جائے ناکہ مسلح انقلاب کا راستہ اپنایا جائے۔ 1979 میں جب افغان کمیونسٹ حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر مظالم ہوئے تو مولانا سے پوچھا گیا جواب دیا کہ کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہمارے افغان بھائی صدی کے بہت بڑے جہاد میں مصروف ہیں بلکہ جن مشکلات کا انہیں سامنا ہے کسی کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہے لیکن جب تک کابل حکومت ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیںکرتی یا حکومت پاکستان اس سے تمام تعلقات توڑ کر جنگ کا اعلان نہیں کرتی کسی پاکستانی شہری کو سرحد پار جاکر افغان مسلمانوںکی مدد نہیں کرنی چاہیے یہ کام اسلامی اور عالمی قانون کے بھی منافی ہوگا ہاں البتہ قبائلی عوام جاسکتے ہیں بہتر ہوگا کہ وہ بھی پاکستان کے قانون کی پابندی کریں مولانا کی کہی ہوئی باتیں آج بھی ہمارے لیے رہنمائی کا سامان لیے ہوئے ہیں اور جو بھی کارکن روشنی کے مینار سے استفادہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ایک بار پھر مولانا کی کتب کا مطالعہ کرے مولانا کی عصری مجالس کی گفتگو رسائل و مسائل تو بار بار پڑھتے رہنا چاہیے۔