سندھ سوشل سیکورٹی کی تباہی

558

شیخ مجید
سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی صوبے کے محروم و مجبور مزدوروں کا ایک سہارا تھا۔ یہ ادارہ شہید بھٹو کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اس عظیم لیڈر کی مزدوروں سے محبت کا ثبوت ہے جس کو آج بڑی بے دردی سے برباد کیا جارہا ہے۔ اس ادارے کا ماضی بہت ہی شاندار رہا ہے، خصوصاً اس ادارے کا میڈیکل اس ادارے کے ماتھے کا جھومر تھا جہاں میڈیکل سے متعلق عظیم ترین ہستیاں موجود تھیں جن میں ڈاکٹر عبداللہ گھانگرو، ڈاکٹر عبدالصمد بشرا، ڈاکٹر مقبول عالم، سرجن مجیب الرحمن، ڈاکٹر حسیب عالم، ڈاکٹر لطیف کوکس واڈیا، ڈاکٹر برنی، ڈاکٹر سعید النساء، ڈاکٹر انعام الرحمن اور ڈاکٹر حاذق نفیس جیسے بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر موجود تھے۔
لیکن قانونی مجبوریوں اور تقاضہ قدرت کے تحت یہ حضرات و خواتین ریٹائر یا مالک حقیقی سے جاملے۔ انہوں نے کچھ اپنے شاگرد ادارے کی خدمت کے لیے چھوڑے جن میں ڈاکٹر خورشید بلوچ، ڈاکٹر جلال اور ڈاکٹر شاہ محمد نوناری جیسے نام شامل ہیں۔
یہی نہیں کچھ خدا ترس لوگوں نے جن کا مقصد انسانی خدمت تھا اس ادارے میں ملازمت اختیار کی اور ان حضرات کا مقصد صرف اس مجبور اور محروم طبقے کی جس کو مزدور کہتے ہیں ان کی خدمت تھا۔ ان میں امراض قلب کے ماہر ڈاکٹرشفیق الرحمن جو انگلستان سے اپنی ملازمت چھوڑ کر آئے اور ڈاکٹر شہاب عابد جیسے مشہور زمانہ فزیشن شامل ہیں۔ ان ہستیوں نے سوشل سیکورٹی کو کسی مفاد سے بالا تر ہو کر جوائن کیا تھا اور دل و جان ایک کرکے خدمت کررہے تھے، ادارہ ان کو ان کی خدمت کے عوض صرف اتنے پیسے دیتا تھا جتنا وہ چند روز میں کما سکتے تھے۔



کیوں کہ وہ خالصتاً خدمت کے جذبے سے کام کررہے تھے، اس لیے ادارے کی انتظامیہ کی جابے جا خواہشات کی تکمیل نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ ان عظیم ہستیوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے سوشل سیکورٹی کو خیر باد کہہ دیا، جس کا نقصان صرف مزدوروں کو ہوا۔ آج پھر تاریخ دہرائی جارہی ہے اور انتظامیہ اپنی ہٹ دھرمی اور ذاتی مفاد و انا کی بھینٹ ایک ایسے ڈاکٹر کو چڑھانے جارہی ہے جس کا نام ڈاکٹر شاہ محمد نوناری ہے۔ یہ وہ ڈاکٹر صاحب ہیں جنہوں نے اپنی فہم و فراست سے اس ادارے کے 5 میڈیکل کے شعبہ جات کو FCPS کے لیے رجسٹر کرایا اور اس کی بنا پر یہاں سے PG ڈاکٹر نکلنا شروع ہوئے۔ انہوں نے بحیثیت میڈیکل ایڈوائزر 8 سال ادارے کی خدمت کی اور جب سوشل سیکورٹی کے سفید ہاتھی کڈنی سینٹر لانڈھی کا ایم ایس بنایا گیا تو اس مردہ یونٹ کو زندہ کیا، ناصرف اس کے اخراجات میں خاطر خواہ بچت کی بلکہ کڈنی سینٹر کے بند آپریشن تھیٹر کو شروع کیا کیوں کہ خود ایک ماہر سرجن ہیں لہٰذا انتہائی قلیل عرصے میں 200 کامیاب سرجریز کیں، آج اس سینٹر میں مریض مناسب تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر علاج لے رہے ہیں۔
انہوں نے ناصرف خود اس ادارے میں آپریشن کیے بلکہ اپنے ذاتی تعلقات کو استعمال میں لاتے ہوئے چین کے مشہور زمانہ ڈاکٹر جون کو بھی دو روز کے لیے اس سینٹر میں مدعو کیا جنہوں نے یہاں پر ناصرف مریضوں کے آپریشن کیے بلکہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کو پڑھایا بھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس قسم کی ہستیاں بنیادی اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتیں اور ایسا ہی ہوا کہ جب ایک غیر حاضر وارڈ بوائے کی تنخواہ جاری کرنے کا مسئلہ آیا تو وہ انتظامیہ کے آگے ڈٹ گئے اس پاداش میں ان کو ایک وضاحتی مراسلہ بھی جاری کردیا گیا، راقم کی نظر سے وہ مراسلہ اور اس کا جواب گزرا ہے، مراسلہ صرف بلیک میلنگ تھا جب کہ اس کا جواب ایسے شخص کے حل کے آنسو ہیں جو ادارے کی بربادی پر نوحہ کناں ہے۔



جواب میں چند ایسے نکات اٹھائے گئے جن کو بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت تھی اور قرار واقعی انکوائری کرانی تھی مگر افسوس کہ انکوائری کے بجائے ڈاکٹر نوناری کو ایک آمر کے زمانے کے جاری آرڈیننس 2000 کے تحت ملازمت سے برخاستگی کے لیے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا گیا اور یہ نوٹس خود اپنی جگہ غیر قانونی ہے کیوں کہ یہ آرڈیننس سندھ میں بھی ختم کردیا گیا ہے یہ نوٹس ماضی کے عمل کی تکرار ہے اور انتظامیہ کی سوچ کا آئینہ دار ہے کہ وہ اب اس عظیم سرجن سے جس کی مزدوروں اور ادارے کے لیے بے شمار خدمات ہیں اس کو ادارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔
خبر یہ ہے کہ انتظامیہ نے اپنے من گھڑت و بے بنیاد الزامات کے ذریعے سے وزیر محنت کو بھی اس بات پر قائل کرلیا ہے کہ ڈاکٹر نوناری ادارے کا اثاثہ نہیں بلکہ اس پر بوجھ ہیں اور جلد از جلد ان سے جان چھڑائی جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی عمل ناصر حسین شاہ کے کندھے کو استعمال کرکے کیا جائے گا اور ایسا کوئی منفی عمل کرنے سے ادارے میں ایک ایسا پنڈورا بکس کھل جائے گا جس کا تصور بھی محال ہے اور اس کی بنیاد ایک غیر حاضر وارڈ بوائے کی اس تنخواہ کے جاری نہ ہونے کی بنا پر ہے جس کے بارے میں ہیڈ آفس کی انتظامیہ کو تحریری طور پر مطلع کردیا گیا ہے مگر انتظامیہ بجائے تحریری اجازت دینے کے زبانی حکم کی بنا پر ڈاکٹر شاہ محمد نوناری سے جان چھڑانا چاہتی ہے کیوں کہ وہ ادارے اور مزدوروں سے مخلص ہے اور ایسے شخص کی ادارے میں کوئی جگہ نہیں۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر شاہ محمد نوناری نے اپنی ملازمت سے ممکنہ برطرفی کے خلاف معزز سندھ ہائی کورٹ سے اپنی ممکنہ برطرفی کے خلاف حکم امتناع حاصل کرلیا ہے۔