مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا خطرہ

512

zc_Jilaniکرد قوم جہاں ایک طرف اس قدر خوش قسمت ہے کہ اسے صلاح الدین ایوبی ایسے مرد مجاہد کی قیادت نصیب ہوئی وہاں دوسری جانب اس قدر بد قسمت ہے کہ ایک طویل عرصہ سے چار ملکوں میں گھری ہوئی ہے او ر اس قوم کو اپنا کوئی الگ مستقل آزاد وطن نصیب نہیں ہوسکا ہے۔
ایک سو سال پہلے جب پہلی عالم گیر جنگ کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ بکھری اور برطانیہ اور فرانس نے سائیکس پیکوٹ سمجھوتے کے تحت مشرق وسطیٰ میں اپنے اپنے حلقہ اثر کے لیے مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کیے تھے تو اس وقت کردوں کی آزاد خودمختار مملکت کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن 1919کے لویزان کے معاہدے کے تحت اس وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کردوں کے حق خود ارادیت کو ٹھکرا کر کرد علاقے ترکی، عراق، شام اور ایران میں ضم کردیے گئے۔
عراقی کردستان نے جسے 1970 میں صدام حسین کے دور میں ایک سمجھوتے کے تحت خود مختاری دی گئی تھی اور عراق کی جنگ کے بعد 2005 میں جہاں خود مختار حکومت قائم کی گئی تھی، 25ستمبر کو آزادی کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، جس پر اس بنا پر ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ نہ صرف عراق کی حکومت اس ریفرنڈم کے سخت خلاف ہے، بلکہ امریکا، برطانیہ، فرانس، ترکی، ایران، سعودی عرب، عرب لیگ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی اس اقدام کے خلاف علم مخالفت بلند کیا ہے۔ گو ان سب کے اپنے اپنے دلائل ہیں لیکن مشترکہ طور پر ان کے بیانیے عراق کے پچاس لاکھ کردوں کو ان کے حق خود ارادیت سے محرومی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔



عراقی کردستان کے قائد مسعود برزانی نے اس بات پر سخت تعجب کا اظہار کیا ہے کہ امریکا اور برطانیہ نے آزادی کے لیے ریفرنڈم کی مخالفت کی ہے جب کہ اب تک امریکا کردستان کے تیل کی دولت کے پیش نظر آزاد کردستان کا حامی تھا اور داعش کی سپاہ کے خلاف جی داری سے لڑنے کی بنا پر کرد پیش مرگہ پر امریکیوں کا دست شفقت تھا۔ فرانس، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کا استدلال ہے کہ آزاد کردستان کے قیام سے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔
ترکی اپنی جنوبی سرحد سے ملحق آزاد کردستان کے قیام کا اس بنا پر سخت مخالف ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے ملک میں کردوں کی بغاوت کا سامنا کر رہا ہے۔ پہلی عالم گیر جنگ کے بعد سے اب تک ترکی میں کردوں کی لگا تار چار بغاوتین ہو چکی ہے اور ترکوں نے کردوں کی آزادی کی تحریکوں کو بری طرح سے کچل دیا ہے۔ اسی بنا پر اسے خطرہ ہے کہ آزاد کردستان کے قیام سے ترکی کے کردوں کی بغاوت کو شہہ ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے اپنی فوج عراقی کردستان کی سرحد پر جمع کر دی ہے اور پارلیمنٹ نے سرحد پار فوج استعمال کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ ایران جسے عراق کی جنگ کے بعد تہران سے لے کر لبنان تک اپنے اثر کا کوریڈور ملا ہے، آزاد کردستان کو سد راہ تصور کرتا ہے اور اس کا ہر قیمت پر تحفظ چاہتا ہے۔ ایران کسی صورت میں اپنی سرحد پر ایک آزاد کردستان برداشت نہیں کرے گا۔
ایران میں واقع کردستان میں 1979 میں انقلاب کے بعد بڑے پیمانہ پر بغاوت بھڑک اُٹھی تھی اور کردوں نے حلب جہ اور ویویران پر قبضہ کر لیا تھا لیکن پاس داران انقلاب نے اس بغاوت کو کچل دیا تھا۔ ایرانی کردستان کو کوئی خود مختاری حاصل نہیں بلکہ محض ایک صوبہ کی حیثیت ہے۔



آزاد کردستان کے قیام سے عراق کو اپنا اتحاد منتشر ہونے کا خطرہ ہے حالاں کہ عراق میں 1922 سے 1924 تک کردستان کی مملکت رہی ہے لیکن جب عراق میں بعث بارٹی برسر اقتدار آئی تو یہ مملکت صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ عراق کسی صورت میں ایران سے اپنا براہ راست رابطہ منقطع نہیں ہونے دینا چاہے گا۔ شمالی عراق میں آزاد کردستان کی مملکت کے قیام سے بلا شبہ یہ رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ پھر عراقی حکومت کسی صورت میں تیل سے مالا مال کرکوک کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی ہے۔ تیل کے علاوہ کرکوک اس بنا پر متنازع علاقہ ہے کہ یہ خالص کردوں کا علاقہ نہیں ہے یہاں، ترکمان بھی رہتے ہیں اور عرب بھی آباد ہیں۔
مبصرین یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا چومکھی مخالفت کے باوجود آزاد کردستان اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا۔ کردستان، چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور چوں کہ اسے اپنی معیشت کے لیے کرکوک کے تیل پر دارومدار کرنا پڑے گا اس لیے اسے اپنے کسی پڑوسی سے تیل کی برآمد کی راہ کے لیے سمجھوتا کرنا پڑے گا۔ ایک ملک جس کی طرف مدد کے لیے کردستان دیکھ سکتا ہے وہ اسرائیل ہے جس نے سب سے پہلے عراقی کردستان کا تیل خریدا تھا۔ گو اسرائیل کے بیش تر سیاست دان کھلم کھلا آزاد کردستان کے قیام کی حمایت کرتے ہیں لیکن اسرائیلی حکومت پر اسرار طور پر خاموش ہے اور کسی واضح موقف کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین کی رائے ہے کہ آزاد کردستان کئی اعتبار سے اسرائیل کے لیے فائدہ مند رہے گا۔



سب سے پہلے تو آزاد کردستان، ایران اور شام کے درمیان رابطہ میں رکاوٹ ثابت ہو گا اور نہ صرف ایران کے لیے درد سر ثابت ہوگا بلکہ ترکی، عراق اور شام کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہوگا۔ شام کے تئیں اس وقت اسرائیل کا جو حریفانہ رویہ ہے اس کے پیش نظر اسرائیل، شام کی پریشانی کو پسندید گی کی نظر سے دیکھے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل کے تاجروں کو اس وقت عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل میں کھلے دل سے پزیرائی حاصل ہے اور اسرائیل کو توقع ہے کہ ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد اس کے ترکی سے روابط بڑی تیزی سے استوار ہوں گے اور اس صورت میں اسرائیل ترکی کے راستے آزاد کردستان کا تیل آسانی سے درآمد کر سکے گا۔
آزاد کردستان کے جال میں اسرائیل کے اُلجھاؤ سے خطرہ ہے کہ ا س پورے علاقہ میں نئی پیچیدگیاں پیدا ہوں، جب کہ ان تمام ملکوں سے جن میں کرد قوم گھری ہوئی ہے پہلے ہی تفرقے اور مسائل ہیں اور بلاشبہ عراقی کردستان میں ریفرنڈم کے نتیجے میں حالات دگر گوں ہوں گے اور مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ بھڑک اُٹھے گی۔