پرانی سیاست گری خوار ہے!

446

zc_ZairOZabarپرانی سیاست گری ہی نہیں، اب تو پُرانی دانشوری بھی ذلیل و خوارہے۔ خدا بھلا کرے جدید ذرایع ابلاغ کا ۔۔۔ ایک ایک کر کے اس پر سب بلائے جاتے ہیں۔ سب کے تماشے دکھائے جاتے ہیں۔ اور سب کا حال کھل جاتا ہے کہ کتنے پانی میں ہیں۔ سچ پوچھیے توذرائع ابلاغ کے گھر بیٹھے ناظرین نے یہاں ۔۔۔ ’بڑے بڑوں کو بھٹکا دیکھا ۔۔۔ بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا ۔۔۔ منہ کو اگرچہ لٹکا دیکھا ۔۔۔ دِل دربار میں اٹکا دیکھا‘ ۔۔۔ (یہاں دربار سے مراد ’’دربارِ دانشِ امریکا‘‘ ہے) ۔۔۔ وجہ یہ کہ ہمارے اکثر دانشوروں میں سے کسی کے پاس اپنی عقل ہے، نہ اپنی ذہانت ہے نہ اپنا موقف اور نہ اپنا نقطۂ نظر۔۔۔ سب کچھ درامد شدہ (Imported) ہے۔ امریکا دینی مدارس کے خلاف ہو تو اِس ہوا کے رُخ پر چلنے والے سب دانشور دینی مدارس کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ امریکا نے ہماری دینی اصطلاح ’’جہاد‘‘ کو یکایک تضحیک سے استعمال کرنا شروع کردیا تو ’’جہاد‘‘ پر طنز و استہزا سے کالموں کے کالم بھر گئے۔ بقول حفیظؔ جالندھری:
کہیں نامِ جہاد آئے تو یہ رہ رہ کے ہنستے ہیں
ہمارے غازیوں کو راہزن کہہ کہہ کے ہنستے ہیں



دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے بعض دانشوروں کو اپنے نام سے نتھی لفظ ’غازی‘ کا فہم و ادراک حاصل ہے نہ ’غزوہ‘ کا۔ پھر بھی یہ ’اہلِ علم و دانش‘ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ امریکا نے ’طالبانِ علم‘ کو دُنیا بھر میں ’’جہل‘‘ کی علامت بنا کر پیش کیا تو انہوں نے بھی ’طالبان‘ کو ایک گالی کے طور پر لکھنا شروع کر دیا۔ امریکا نے اسلام کی دینی تعلیمات کو ’نفرت انگیز‘ تعلیمات قرار دیا تو یہ بھی قرآن و حدیث کی تعلیمات کو (قرآن و حدیث کا نام لیے بغیر) ’نفرت کی تعلیم‘ قرار دینے لگے۔ قرآن و حدیث کا نام اس لیے نہیں لیتے کہ ان میں ’’جرأتِ کفر‘‘ نہیں۔ امریکی پادری ٹیری جونز کی طرح کھلم کھلا قرآن کو ’’سزا‘‘ دینے کی ہمت ہے نہ اسے ’’نذرِ آتش‘‘ کر گزرنے کی طاقت۔ ورنہ باتیں سنیے تو محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کی محبت میں یہ اس سے بھی کئی جوتے آگے بڑھ جانے کے خواہش مند ہیں۔ پر ان سے فقط دوچار سوال ہی کرلیجیے تو یہ میدان چھوڑ بھاگتے ہیں۔ کیوں کہ امریکا کے سُجھانے سے پہلے انہیں ان میں سے کوئی بات کبھی سوجھی ہی نہیں تھی۔ سو، امریکا کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ہونا ہی چاہیے۔ اس سے برا حال اسی قماش کے پرانے سیاست گروں کا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت اور انسانی مشاہدہ ہے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نوعِ نسوانیت کے حقیقی محسن ہیں۔ آپؐ نے تاریخِ انسانی میں پہلی بار حصولِ علم کو ’مسلم‘ اور ’مسلمہ‘دونوں کا ’فریضہ‘ قرار دیا۔ مگر کیا آپ نے ہمارے ان دانشوروں میں سے کسی کے منہ سے کبھی سنا کہ لڑکیوں کو بھی قرآن و حدیثِ نبوی کی تعلیم دینا چاہیے؟ پرویز مشرف کے دور میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے ’جامعہ حفصہ‘ کو، جس میں ڈھائی ہزار لڑکیاں مفت تعلیم حاصل کرتی تھیں، فاسفورس بموں سے اُڑا دیا گیا۔ کیا آپ نے کبھی ٹی وی پر یہ سوال سنا:



’’سیکولر عناصر لڑکیوں کے مدارس کو فاسفورس بموں سے کیوں اُڑا دیتے ہیں؟‘‘
کبھی کسی نے ان سے پوچھا:
’’آخر آپ لوگ ’العلم‘ کے کیوں خلاف ہیں؟‘‘
اگر پوچھیے تو انہیں خود علم نہ ہوگا کہ قرآن کی کس سورۃ کی کون سی آیت میں کیا علم دیا گیا ہے؟ البتہ یہ اس علم کے خلاف ہی ہوں گے۔ کبھی ہمارا ایک سیدھا سادہ (پی او ایف واہ کا) مزدور شاعر سبطِ علی صباؔ ان سے پوچھ بیٹھے کہ:
یہ کیسا علم ہے جس کے پجاری تجربے کرکے
کسانوں کے لیے دھرتی کو بنجر چھوڑ جاتے ہیں؟
تو اس غریب مزدور کو ’فروغِ علم‘ ہی کا مخالف سمجھ لیا جاتا ہے۔کیا سات سمندر پار سے آکر ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم مارنا، عراق اور افغانستان کے بے قصور شہریوں کو اجتماعی قبروں کا منہ دکھا دینایا وانا کے ایک مدرسے کے 80بچوں کو ایک ہی ڈرون حملے میں ہلاک کردینا ’جہالت‘ یا ’دہشت گردی‘ نہیں ہے؟ دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے۔ کوئی ان کے گھروں میں بھی تو جھانک کر دیکھے کہ:
یہ کمسن پھول سے چہرے لحد کی گود میں سو کر
گھروں میں گھومتے سایوں کے پیکر چھوڑ جاتے ہیں
ان تمام سوالات کے جواب میں ہمارے ’اہلِ علم و دانش‘ پر سکوت بلکہ ’سکتہ‘ طاری ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی ان سے کیسے پوچھیے کہ ’مغرب‘ میں لڑکیوں کو کیا ’علم‘ دیا جا رہا ہے؟ وہی نا؟ ۔۔۔ بقولِ اقبالؔ ۔۔۔ وہ علم کہ جس علم سے زن ہوتی ہے نازن!
جنس، رقص و سرود، اختلاط اور اسقاط وغیرہ سب وہاں ’’نصابی تعلیم‘‘ کا حصہ ہیں۔ حیا اور حجاب سے اُن کی ’’قانونی دشمنی‘‘ ہے۔ جب کہ ’’ہم جنس پرستی‘‘ کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس ’’قانونی استحقاق‘‘ کے خلاف بھی آپ کو قرآن میں قومِ لوطؑ کے ذکر میں ’’نفرت انگیز تعلیم‘‘ مل جائے گی۔ سوچیے تو سہی کہ ۔۔۔ یہ کیسا علم ہے جس کے پجاری ۔۔۔ مغرب کا وہ معاشرہ تخلیق کرتے ہیں جہاں ’’جنسی جرائم‘‘ کی شرح دُنیا کے دیگر تمام معاشروں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے۔



لاکھوں کروڑوں برہنہ ویب سائٹس کوئی افریقا کے ننگے جنگلیوں نے تو نہیں بنائی ہیں؟ یورپ اور امریکا کے ’’مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ روشن خیالوں ہی نے تو بنائی ہیں۔ ان کے اثرات ہمارے دانشوروں کی آزاد خیالی کے طفیل اب ہمارے ’’بند معاشروں‘‘ تک بھی آن پہنچے ہیں۔ ہر طرف ترغیبات کا کھلا بازار سجا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ کسی سنجیدہ اخبار کا ’مجلہ‘ (Magazine) بھی اس وقت تک معیاری نہیں گردانا جاتا جب تک وہ نوجوان نسل کے جنسی جذبات بھڑکا دینے والی چہچہاتی، چہار رنگی تصاویر شائع نہ کرے۔ مگر تعجب ہے کہ جب کوئی ’’جنسی سانحہ‘‘ رُونما ہوجاتا ہے تو الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا سب پر ایک کہرام مچ جاتا ہے۔ یہ کہرام کیسا؟ یہی تو مطلوب و مقصود تھا۔ اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردۂ تُست (اے بادِ صبا! یہ سب کچھ تیرا ہی لایا ہوا تو ہے) یہ تمام ’’روشن خیالیاں‘‘ اور بقول آپ کے یہ سب ’’تفریح‘‘ (Entertainment) جو فراہم کی جارہی تھی، اُس کا اصل مقصد کیا کوئی حیادار، باعصمت اور صاف ستھرا، پاکیزہ معاشرہ تخلیق دینا تھا؟ یہی نتائج تو درکار تھے۔ تم نے بندوق چلائی تھی تو بندوق چلی!
مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اب ۔۔۔ پرانی سیاست گری خوار ہے ۔۔۔ اور پرانی دانشوری بھی ذلیل و خوار ہے۔ ’’نظریۂ تہذیبی تصادُم‘‘ کے شر سے دیکھیے کہ کیسا خیر برآمد ہو رہا ہے۔ ’نائن الیون‘ کے بہانے ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ (نیا نظمِ عالم) بنانے کا خواب دیکھنے والوں کو نہیں معلوم تھا کہ دُنیا واقعی ایک نئے نظام کی طرف راغب ہونے لگے گی۔ قرآن کے حقیقی قارئین میں (خود مغرب میں بھی) ریکارڈ اضافہ ہو جائے گا۔ دُنیا بھر میں ’’حجاب‘‘ ایک تحریک کی صورت اختیار کر جائے گا۔ یورپ اور امریکا میں اسلام قبول کرنے والوں کی شرح یکایک بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ عراق، افغانستان، مصر، شام اور فلسطین میں ہونے والے مظالم ’’اصحاب الاخدود‘‘ کی یاد تازہ کردیں گے۔ آگ کے گڑہوں میں پھینکے جانے والے ہر فردِ بشر کو ’مسلمان‘ کر جائیں گے۔ اور اقبالؔ کی یہ پیش گوئی امت مسلمہ کو پوری ہوتی نظر آنے لگے گی:
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے