مسلمان حکمرانوں کے لیے جرأتِ اظہار کی دعا 

480

zc_ArifBeharترکی کے صدر رجب طیب اردوان اپنی بات کہنے کے لیے اگر مگر کا سہار نہ لینے والے عالمی راہنما کے طور پر مشہور ہیں۔ باالخصوص مسلمانوں کے مسائل اور مشکلات پر طیب اردوان کسی خوف اور مصلحت کو خاطر میں لائے بغیر اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کا درد رکھنے اور اس درد کے اظہارکرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کرتے۔ برما میں مسلمانوں کی حالت زار پر ان کی حالیہ مہم اس جرأت اظہار اور درد مندی کا ثبوت ہے۔ بنگلا دیش میں برما کی مہاجر کیمپ کے دورے کے دوران ترکی کی خاتون اول بیگم امینہ کے آنسودرد کے رشتوں کی طاقت کے مظہر تھے۔ ایک طرف مسلمان دُنیا میں بے حس حکمرانوں کی فوج ظفر موج جو حال مست مال مست کی تصویر بنے ہوئے ہیں تو دوسری طرح مسلم اُمت کے ہر لمحہ دھڑکنے والا دل عجیب سماں پیدا کر رہا ہے۔ یوں اس غیر متوازن اور بے حس منظر میں اردوان ایک عجیب سی تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں مگر حق بات کہنے کے لیے ایک ہجوم اور لشکر نہیں بلکہ ایک بے خوف دل درکار ہوتا ہے۔



طیب اردوان ان دنوں امریکا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے موجود ہیں جہاں انہوں نے مختلف اسلامی انجمنوں کے زیر اہتمام تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کہ مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ عالمی سطح پر امتیازی سلوک کی حامل ایک اصطلاح کو موضوع بحث بنایا۔ اس اصطلاح پر دانشورانہ سطح پر احتجاج تو ہوتا ہے مگر حکمرانوں کی سطح پر کبھی کھل کر یوں اظہار نہیں کیا گیا۔ طیب اردوان کا کہنا تھا کہ کہ ہم نے آج تک مسیحی دہشت گردی اور بودھ دہشت گردی کے الفاظ نہیں سنے۔ برما میں مسلمانوں کے قتل عام کو بودھ دہشت گردی کی نہیں کہا گیا مگر اس ایک مسلمان کے انفرادی فیصلے کو مغرب میں مسلمان اور اسلامی دہشت گردی یا دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح مسلمانوں کی توہین اور حق تلفی ہے۔ رجب طیب اردوان نے اسلامی دہشت گردی کے نام سے مغرب کی ایک جدید فتنہ پرور ایجاد پر جائز گرفت کی ہے۔ اس اصطلاح کا مقصد مسلمانوں کو بطور مجموعی اور اسلام کو بطور مذہب اور تہذیب کے دہشت گردی کے ساتھ مستقل بریکٹ کرنا ہے۔ اس کے پیچھے اصل ذہن یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں اسلام کی تیز رفتار ترویج و اشاعت اور قبولیت کے آگے نفرت کا اسپیڈ بریکر نصب کیا جائے۔ مغربی دانشوروں کی اس اصطلاح کی بھرپور تشہیر مغربی میڈیا کر رہا ہے۔ اگر امریکا اور یورپ میں ایک مجہول الحواس مسلمان کوئی پرتشدد کارروائی کرے تو میڈیا اس پر اسلامی دہشت گردی کا واویلا کرتا ہے مگر کشمیر میں بھارتی فوج، فلسطین میں اسرائیل، کئی ملکوں میں امریکی اور برطانوی فوج جب کہ برما میں بودھ حکمران اور فوج مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھارہے ہیں مگر کہیں سے بھی یہودی دہشت گردی، ہندو دہشت گردی، بودھ دہشت گردی اور عیسائی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی۔



اس کے قطعی برعکس ایک گمراہ، ذہنی مریض یا ردعمل کا شکار مسلمان یا کسی گروہ کے فعل کو اسلامی دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ملت اور تہذیب کی توہین کے مترادف ہے۔ یہ دہشت گردی کی بات نہیں مغرب نے تو مسلمانوں کے ہتھیاروں کا تعلق بھی مذہب سے جوڑ رکھا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کا ایٹم بم اسلامی بم ہے۔ یہی بم بھارت کے پاس ہو تو ہندو بم چین کے پاس بودھ بم، امریکا کے پاس عیسائی بم اور اسرائیل کے پاس یہودی بم نہیں کہلاتا مگر مسلمان ملک کے پاس اس بے جان اور بے زبان ہتھیار کا مذہب بھی دریافت ہوجاتا ہے۔ ان کمزور سہاروں اور ہتھیاروں کے باجودمغرب اپنے ہاں اسلام کی قبولیت کو روکنے میں کامیاب نہیں ہورہا۔
مسلمان دنیا کو مغرب کامائنڈ سیٹ بدلنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ آج رجب طیب اردوان نے بہت کھل کر مغرب کی اس منافقت کا پردہ چاک کیا مگر مسلمان دانشوروں، محققین، تھنک ٹینکس ‘اسکالرز اور میڈیا کے وابستگان کو کسی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر یہ بتانا چاہیے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا نہ ہی دہشت گردوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے۔ دہشت گردی از خود ایک مذہب ہے۔ دنیا میں ہر جدوجہد بھی دہشت گردی نہیں کہلا سکتی۔ آج دنیا میں دہشت گردی کی جو اقسام نظر آرہی ہیں ان میں بہت سی خود مغربی سماج کی پیدا کردہ ہیں۔ القاعدہ اور داعش کے ڈانڈے مغربی منصوبہ سازوں ہی سے ملتے ہیں۔ چند دن قبل برما کے مہاجرین کیمپ میں جب سوشل میڈیا پر ترک خاتون اول کی آنسوؤں بھری تصویر موضوع بحث تھی تو پاکستان کے ایک معروف صحافی نے ٹویٹر پر اس دُعا کے ساتھ تصویر شیئر کی تھی کہ خدا ہر مسلمان کو یہی درد دل عطا کرے۔ اب طیب اردوان کی اس موقف کے بعد یہ بے ساختہ یہ دعا دل سے نکلتی ہے کہ خدا مسلمان حکمرانوں کو یہی جرأتِ اظہار عطا کرے۔