تاہم کوئی بھی فرد ہو پاکستان کے بارے میں ایسے خیالات کے اظہار پر اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ آرمی چیف سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ لندن میں بیٹھ کر الطاف حسین نے آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف، ڈی جی رینجرز اور دیگر افسران کے بارے میں نہایت گھٹیا زبان استعمال کی تھی۔ لیکن اس کی تقریریں بند کرنے سے بڑھ کر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکا۔ سابق حکمران میاں نواز شریف تو اس حوالے سے زبان ہی بند رکھتے تھے البتہ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ رحمن ملک اور دیگر رہنما دوڑے دوڑے لندن جاتے تھے۔ آزادی اظہار رائے اپنی جگہ لیکن ریاست کا وقار اور احترام لازم ہے،امریکا میں بھی ریاست کے خلاف بات نہیں کی جاسکتی۔ یہاں تو آئین ، فوج، پاکستان کسی کو نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ کھلے عام را سے مدد مانگی جاتی تھی اور اس پر تالیاں بجانے والے حیرت انگیز طور پر آج بھی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ہیں ۔ اگر بیرون ملک بیٹھ کر ملک توڑنے کی باتیں کرنے اور فوج کو گالیاں دینے والے کو جلد گرفتار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے تو جو لوگ ابھی گرفت میں آسکتے ہیں پہلے ان کے خلاف کارروائی کی جائے جو ان باتوں پر واہ واہ کیا کرتے تھے اور ان کی تائید کرتے تھے وہ لوگ اسمبلیوں میں وی آئی پی بنے بیٹھے ہیں۔