صحت کے آداب

453

مولانا یوسف اصلاحی

۱۔صحت خدا کی عظیم نعمت بھی ہے اور عظیم امانت بھی صحت کی قدر کیجیے اور اس کی حفاظت میں کبھی لاپروائی نہ برتیے۔ ایک بار جب صحت بگڑ جاتی ہے تو پھر بڑی مشکل سے بنتی ہے۔ جس طرح حقیر دیمک بڑے بڑے کتب خانوں کو چاٹ کر تباہ کر ڈالتی ہے، اسی طرح صحت کے معاملے میں معمولی سی خیانت اور حقیر بیماری زندگی کو تباہ کر ڈالتی ہے۔ صحت کے تقاضوں سے غفلت برتنا اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کرنا بے حسی بھی ہے اور خدا کی ناشکری بھی۔
انسانی زندگی کا اصل جو ہر عقل و اخلاق اور ایمان و شعور ہے، اور عقل و اخلاق اور ایمان و شعور کی صحت کا دارومدار بھی بڑی حد تک جسمانی صحت پر ہے، عقل و دماغ کی نشوونما، فضائل، اخلاق کے تقاضے اور دینی فرائض کو ادا کرنے کے لیے جسمانی صحت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ کمزور اور مریض جسم میں عقل و دماغ بھی کمزور ہوتے ہیں اور ان کی کارگزاری بھی نہایت ہی حوصلہ شکن اور جب زندگی امنگوں، ولوں اور حوصلوں سے محروم ہو اور ارادے کمزور ہوں ، جذبات سرد اور مضمحل ہوں تو ایسی بے رونق زندگی جسم ناتواں کے لیے وبال بن جاتی ہے۔
زندگی میں مؤمن کو جو اعلیٰ کارنامے انجام دینا ہیں اور خلافت کی جس ذمے داری سے عہدہ برآ ہونا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ جسم میں جان ہو، عقل و دماغ میں قوت ہو، ارادوں میں مضبوطی ہو، حوصلوں میں بلندی ہو اور زندگی ولولوں،امنگوں اور اعلیٰ جذبات سے بھرپور ہو۔ صحت مند اور زندہ دل افراد سے ہی زندہ قومیں بنتی ہیں اور ایسی ہی قومیں کارگاہِ حیات میں اعلیٰ قربانیاں پیش کرکے اپنا مقام پیدا کرتی ہیں ا ور زندگی کی قدر و عظمت سمجھاتی ہیں۔



۲۔ہمیشہ خوش و خرم، ہشاش بشاش اور چاق و چوبند رہیے، خوش باشی، خوش اخلاقی، مسکراہٹ اور زندہ دلی سے زندگی کو آراستہ، پُرکشش اور صحت مند رکھیے۔ غم، غصہ، رنج و فکر، حسد، جلن، بدخواہی، تنگ نظری، مردہ دلی اور دماغی الجھنوں سے دور رہیے۔ یہ اخلاقی بیماریاں اور ذہنی الجھنیں معدے کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، اور معدے کا فساد صحت کا بدترین دشمن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’سیدھے سادے رہو، میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش بشاش رہو۔‘‘ (مشکوٰۃ)
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کا سہارا لیے ہوئے ان کے بیچ میں گھسیٹتے ہوئے جا رہا ہے۔ آپؐ نے پوچھا: اس بوڑھے کو کیا ہوگیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس نے بیت اللہ تک پیدل جانے کی نذر مانی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’خدا اس سے بے نیاز ہے کہ یہ بوڑھا خود کو عذاب میں مبتلا کرے۔‘‘ اور اس بوڑھے کو حکم دیا کہ ’’سوار ہو کر اپنا سفر پورا کرو۔‘‘
حضرت عمرؓ نے ایک بار ایک جوان آدمی کو دیکھا کہ مریل چال چل رہا ہے۔ آپؐ نے اس کو روکا اور پوچھا: ’’تمہیں کیا بیماری ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’کوئی بیماری نہیں ہے۔‘‘ آپؐ نے اپنا درہ اٹھایا اور اس کو دھمکاتے ہوئے کہا: ’’راستہ پر پوری قوت کے ساتھ چلو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب راستے پر چلتے تو نہایت جمے ہوئے قدم رکھتے اور اس طرح قوت کے ساتھ چلتے کہ جیسے کسی نشیب میں اتر رہے ہوں۔

حضرت عبداللہ بن حارثؓ کہتے ہیں: ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔‘‘ (ترمذی)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو دعا سکھائی ہے اس کا بھی اہتمام کیجیے:
اللَّھُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدِّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ۔ (بخاری، مسلم)
’’خدایا! میں اپنے کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، پریشانی سے، غم سے، بیچارگی سے، سستی اور کاہلی سے، قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ کو دبا کر رکھیں۔‘‘
۳۔اپنے جسم پر برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیے۔ جسمانی قوتوں کو ضائع نہ کیجیے۔ جسمانی قوتوں کا یہ حق ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے اور ان سے ان کی برداشت کے مطابق اعتدال کے ساتھ کام لیا جائے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اتنا ہی عمل کرو جتنا کر سکنے کی تمہارے اندر طاقت ہو، اس لیے کہ خدا نہیں اکتاتا، یہاں تک کہ خود تم ہی اکتا جاؤ‘‘۔ (بخاری)
حضرت ابوقیسؓ فرماتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے وقت حاضر ہوئے جب کہ نبیؐ خطبہ دے رہے تھے۔ حضرت ابوقیسؓ دھوپ میں کھڑے ہوگئے۔ نبیؐ نے حکم دیا تو وہ سائے کی طرف ہٹ گئے۔ (الادب المفرد)
اور آپؐ نے اس سے بھی منع فرمایا کہ آدمی کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں رہے اور کچھ سائے میں۔

قبیلہ باہلہ کی ایک خاتون حضرت مجیبہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میرے ابا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دین کا علم حاصل کرنے کے لیے گئے اور (دین کی کچھ اہم باتیں معلوم کرکے) گھر واپس آ گئے۔ پھر ایک سال کے بعد دوبارہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بالکل نہ پہچان سکے) تو انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ نبی نے فرمایا: ’’نہیں، میں نے تو تمہیں نہیں پہچانا۔ اپنا تعارف کراؤ؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’میں قبیلہ باہلہ کا ایک فرد ہوں۔ پچھلے سال بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’یہ تمہاری حالت کیا ہو رہی ہے!‘‘ پچھلے سال جب آئے تھے تب تو تمہاری شکل و صورت اور حالت بڑی اچھی تھی!‘‘ انہوں نے بتایا کہ جب سے میں آپ کے پاس سے گیا ہوں۔ اس وقت سے اب تک برابر روزے رکھ رہا ہوں، صرف رات میں کھانا کھاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم نے خواہ مخواہ اپنے کو عذاب میں ڈالا (اور اپنی صحت برباد کرڈالی)۔ پھر آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ رمضان میں مہینے بھر کے روزے رکھو اور اس کے علاوہ ہر مہینے ایک روزہ رکھ لیا کرو۔‘‘ انہوں نے کہا ’’حضور! ایک دن سے زیادہ کی اجازت دیجیے۔ ارشاد فرمایا: اچھا ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو۔ انہوں نے پھر کہا: حضور کچھ اور زیادہ کی اجازت دیجیے۔ آپ نے فرمایا: اچھا ہر مہینے میں تین دن۔‘‘ انہوں نے کہا: حضور کچھ اور اضافہ فرمایئے۔’آپ نے فرمایا: ’’اچھا ہر سال محترم مہینوں میں روزے رکھو اور چھوڑ دو، ایسا ہی ہر سال کرو۔‘‘ یہ ارشاد فرماتے ہوئے آپ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا ان کو ملایا پھر چھوڑ دیا۔ (اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ رجب، شوال، ذیقعدہ اور ذالحجہ میں روزے رکھا کرو اور کسی سال ناغہ بھی کردیا کرو) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مؤمن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے کو ذلیل کرے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: ’’مؤمن بھلا کیسے اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’وہ اپنے آپ کو ناقابل برداشت آزمایش میں ڈال دیتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
(جاری ہے)