خطے میں طاقت پاکستان کے پاس ہے

318

ہندوستان ٹائمز نے اعتراف کیا ہے کہ بھارتی ایجنسی را اور کالعدم تحریک پاکستان کے آپس میں گہرے تعلقات ہیں۔ ان تعلقات پر امریکا کو تحفظات ہیں۔ امریکا نے بھارتی خفیہ ایجنسی اور تحریک طالبان پاکستان کے تعلقات کم کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اخبار کے مطابق تعلقات کا انکشاف پہلی بار طالبان کمانڈر احسان اللہ احسان کی گرفتاری کے بعد ہوا اور امریکا نے اس معاملے میں پاکستان کے موقف کو درست تسلیم کرلیا اور کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام میں پاکستان کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس بھارت کے دورے میں بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت سے را اور تحریک طالبان کے تعلقات پر بات کریں گے۔ تحریک طالبان پاکستا ن اور را کا تعلق احسان اللہ احسان کی گرفتاری کے بعد اس کے ویڈیو اعترافی بیان میں سامنے آیا جس میں اس نے تسلیم کیا تھا کہ ’’وہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔‘‘
اخبار کی خبر پر تبصرے سے پہلے امریکا اور بھارت کے تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی اور اپنے ہی مسلمان

بھائیوں کے قتل عام میں پاکستان نے امریکا کی ہر ممکن مددکی۔ اس تعاون اور معاونت کے نتیجے میں پاکستان ایک سرے سے دوسرے سرے تک خونیں دھماکوں سے گونج اٹھا۔ اس کے ایک لاکھ کے قریب شہری اور ہزاروں فوجی مارے گئے۔ سو ارب ڈالر سے زیادہ پاکستان کو نقصان ہوا لیکن آج پاکستان امریکا کا دشمن اور بھارت جس نے دہشت گردی کی جنگ میں ایک تنکا نہیں ہلایا امریکا کا فطری اتحادی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بھارت کو دیا جانے والا اسلحہ بالآخر پاکستان کے خلاف استعمال ہونا ہے، امریکا بھارت کو جدید ترین اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ پچھلے دس برسوں میں امریکا اور بھارت کے درمیان عسکری ساز وسامان کی خرید وفروخت کا حجم زیرو ڈالر سے بڑھ کر 15ارب ڈالر یعنی 1500کروڑ ڈالر ہوچکا ہے۔ بھارت امریکا کے تعاون سے اپنے دفاع کو جدید خطوط پر استوار کررہا ہے۔ اس مد میں بھارت اگلے سات برسوں میں 30ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان تیس ارب ڈالر میں سے بھارت دس ارب ڈالر امریکا سے نیوکلیر سازوسامان اور مواد کی خریداری پر خرچ کرنا چاہتا ہے۔ اس سودے میں امریکیوں کو 15ہزار ملازمتیں بھی حاصل ہوں گی۔ بھارت امریکا اور جاپان کے ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں بھی کررہا ہے جن میں امریکا کے بڑے بڑے دیو ہیکل جنگی طیارہ بردار بحری جہاز شامل ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جب امریکا کے دورے پر تھے تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھارت کو ’’گارڈین ائر کرافٹ سسٹم‘‘ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایسے طیارے ہیں جن میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا اور ان میں سمندروں کی سطح پر رواں بحری ٹریفک کو ریکی کرنے والے ریڈار نصب ہوتے ہیں۔ جن کا مواصلاتی رابطہ ساحلی ہیڈ کواٹر سے ہوتا ہے۔ بھارت اس قسم کے 22جاسوسی طیارے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس ڈیل کی لاگت کا تخمینہ دو بلین امریکی ڈالر ہے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ اسے بھارت کو MQ-9B جاسوسی طیارے فروخت کرکے حقیقی خوشی ہوگی۔ امریکی بوئنگ اور لاک ہیڈ طیارہ ساز کمپنیاں پہلے ہی بھارت کو F-16 اور F-18 طیاروں کی پیشکش کرچکی ہیں۔
تاہم امریکا اور بھارت کے درمیان یہ تعلق محض عسکری معاملات اور اسلحہ کی خریداری تک محدود نہیں رہا امریکا خطے میں بھارت کو مرکزی اہمیت کا حامل ملک دیکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکا نے بھارت کو افغانستان میں آنے اور قدم جمانے کا پورا پورا موقع دیا۔ جس سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے افغان سرزمین کو بے محابا پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ افغانستان سے پاکستان پر ہونے والے اکثر دہشت گرد حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھارت ہے۔ تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان کے خلاف پاکستان میں نفرت کی فضا پیدا کرنے کے لیے امریکا کی پلانٹڈ تھی۔ جو مکمل طور پر بھارت کے رابطے میں تھی۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا یکا یک انکشاف ہوا ہو۔ کیا امریکا ان تعلقات سے بے خبر تھا؟ ہرگز نہیں۔ پھر پاکستان کے لیے امریکی ہمدردی کا تاثر دینے کی کیا ضرورت ہے؟
پچھلے دنوں صدر ترمپ نے اپنی تقریر میں کہا تھا بھارت امریکا سے تجارت میں اربوں ڈالر کما رہا ہے لہٰذا وہ افغانستان میں کردار ادا کرے۔ افغانستان میں امریکا کے پاس زیادہ مواقع نہیں۔ بھارت افغانستان میں امریکا کی مدد کرے اس حوالے سے بھارت کا کردار بالکل بکواس ثابت ہوا ہے۔ امریکا افغان مجاہدین سے مذاکرات کا خواہاں ہے۔ تاکہ فتح یاب مجاہدین کو مذاکرات کی میز پر شکست دی جاسکے۔ افغان طالبان کو اس حکومت اور سسٹم کا حصہ بننے پر مجبور کیا جاسکے جو امریکا کا وضع کردہ ہے۔ افغان مجاہدین اس سسٹم کا حصہ بن گئے تو رفتہ رفتہ وہ اپنی طاقت کھونا شروع کردیں گے اور جو مقصد امریکا سولہ برس سے جاری جنگ میں حاصل نہ کرسکا وہ حاصل کرسکے۔ لیکن اس مقصد کے حصول میں بھارت امریکا کے لیے ایک مریل گھوڑے سے سوا کچھ ثابت نہیں ہوا۔
امریکا کئی برس سے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹ حکمرانو ں کے ذریعے طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے اشتراک سے ہونے والی اب تک ایسی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ افغانستان میں جو کردار پاکستان ادا کرسکتا ہے بھارت کبھی اتنا اہل نہیں ہوسکتا کہ ایسا کردار ادا کرسکے۔ بھارت افغانیوں کو کیا دے سکتا ہے، فحش فلمیں اور چند تعمیراتی پروجیکٹ۔ افغان طالبان سولہ برس گزرنے اور امریکا کی افغانستان میں آگ اور خون کی بارش کے باوجود آج بھی افغانستان کی سب سے بڑی طاقت اور افغانستان کے وسیع رقبے کے مالک ہیں۔ امریکا اور اس کی تشکیل کردہ افغان حکومت کی عمل داری کابل تک اور افغان حکمرانوں کی حکومت ان کے محلات تک ہے۔ سولہ سال کی ناکامیوں کے باوجود امریکا تاحال مایوس نہیں ہوا۔ کیونکہ امریکا کا جانی نقصان بہت کم ہوا ہے۔ بہت کم تابوت امریکا گئے ہیں۔ نقصان اتحادی افواج اور پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ اس لیے آج بھی وہ افغانستان کو تسخیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کبھی وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا نظر آتا ہے، کبھی پاکستان کو دہشت گردی کو سپورٹ کرنے والا ملک باور کراتا ہے، کبھی صدر ٹرمپ پاکستان کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں، کبھی امریکا پاکستان پر پابندیاں لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی ڈرون حملہ کرتا نظر آتا ہے۔ غرض ہر حیلے سے امریکا پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتا ہے تاکہ اس کے مقاصد کی تکمیل کرسکے۔ امریکا جانتا ہے کہ خطے میں طاقت پاکستان کے پاس ہے۔ لہٰذا پاکستان کو ڈھب پر لانے اور اپنی مطلب براری کے لیے ہر حیلہ استعمال کررہا ہے۔ آج کل یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ عسکری اور سیاسی طاقتوں نے امریکا کے مقابل سخت موقف اختیار کر لیا ہے، ڈومور کی مزید تعمیل سے انکار کردیا اور وہ افغان طالبان سے قربت اور ہمدردی رکھتے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کی خبر میں پاکستان سے متعلق جو ہمدردی کا عنصر پایا جاتا ہے وہ بھی اسی سمت ایک کوشش ہے۔ ورنہ امریکا کو پاکستان میں دھماکے کرنے والی ایک جماعت کی سرگرمیوں پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے جب کہ وہ جماعت اس کی اپنی تخلیق ہے۔