خواجہ آصف کے منہ میں غیروں کی زبان 

422

Edarti LOHمسلم لیگ ن کے حکمران پہلے بھی غیروں کو یہ پیغام دے چکے ہیں کہ خرابی پاکستان کے اندر ہے اور ہمیں پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہیے۔ اب برسوں بعدوزیر خارجہ کے خارجی امور چلانے کے بعد اس منصب کے لیے قرعہ فال خواجہ آصف کے نام نکلا تو انہوں نے ایک بار پھر بھارت اور امریکا کی خوشنودی کے لیے فرمایا ہے کہ ’’حافظ سعید، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک پاکستان پر بوجھ ہیں جن سے جان چھڑانے کے لیے وقت دیا جائے‘‘۔ وہ کس سے یہ مہلت طلب کررہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ امریکا سے جو ڈو مور کا مطالبہ کرتا رہتا ہے اور خواجہ آصف ’’ڈومور‘‘ کے لیے اس سے وقت مانگ رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کا مقتدر طبقہ یہ بھی کہتا رہتا ہے کہ اب ڈو مور کی جگہ نو مور کہنے کا وقت آگیا ہے۔ لیکن وزیر خارجہ امریکا کے لیے مزید کچھ کر گزرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ نیویارک میں ایشیا سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ’’حافظ سعید اور حقانی نیٹ ورک کے معاملے میں ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ درست ہے‘‘۔ لیکن صرف انہی دو تین معاملات میں کیوں۔ نیویارک میں بیٹھ کر تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہر معاملے میں پاکستان سے امریکا کا ڈو مور کا مطالبہ نہ صرف جائز ہے بلکہ یہی وقت کا تقاضہ ہے، وہ وقت جو گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔



امریکا کے ڈو مور کے مطالبے کو تسلیم کرنا صریحاً پاکستان کے مفادات اور اس کی پالیسیوں سے انحراف ہے۔ ایسے شخص کو وزیرخارجہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ان کے اعترافات سے امریکا ہی نہیں بھارت بھی بغلیں بجا رہا ہوگا جو ’’اپنے گھر کو ٹھیک کرنے‘‘ کی بات پر کہہ چکا ہے کہ ہم تو کب سے یہی کہہ رہے تھے، اب خود پاکستان اقرار کررہا ہے کہ خرابی اس کے اندر ہے۔ اب یہی بات با الفاظ دیگر فاضل وزیر خارجہ فرمارہے ہیں ۔ حافظ سعید اور لشکر طیبہ سے سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو ہے جو ان پر مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کا الزام لگاتا رہتا ہے اور بھارت خود پاکستان میں اور کنٹرول لائن پر کیا کررہا ہے، اس کی خبر خواجہ آصف کو شاید نہیں۔ وزیرخارجہ اتنا ہی بتا دیں کہ حافظ سعید پر کیا الزامات ہیں اور انہیں کس عدالت سے کوئی سزا دی گئی۔ انہیں بھارت کو خوش کرنے کے لیے نظر بند کررکھا ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جہاں متعدد دہشت گرد تنظیموں کے علاوہ خود ریاست دہشت گردی میں ملوث ہے اور یہ ساری دہشت گردی پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ وہ کئی عشروں سے مقبوضہ کشمیر میں وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کررہا ہے۔ اور خواجہ آصف فرمارہے ہیں کہ پاکستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو پڑوسیوں کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں لیکن ان کو ختم کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ یعنی امریکا وسائل مہیا کرے۔ صاف ظاہر ہے کہ خواجہ آصف امریکا اور بھارت کی زبان بول رہے ہیں۔



حقانی نیٹ ورک جو بھی ہے وہ امریکا کا درد سر ہے اور امریکا اپنی پوری قوت کے ساتھ افغانستان پر قابض ہونے کے باوجود حقانی نیٹ ورک کو نہیں توڑ سکا۔ اور حقانی گروپ ہی کیا وہ تو افغان مجاہدین ہی کو زیر نہیں کرسکا جو اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں اور پاکستان ان کے خلاف امریکا کی مدد کرتا رہا ہے۔ خواجہ آصف نے امریکا سے بھی گلہ کیا کہ ہمیں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیاگیا اور پھر دھتکار دیا گیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ یہی افغان مجاہدین 25 برس پہلے امریکی لاڈلے اور وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑاتے تھے، خمیازہ پاکستان بھگت رہا ہے۔ امریکا نے تو جو کیا سو کیا لیکن پاکستان سے اس سوال کا جواب کون دے گا کہ سوویت یونین کی افغانستان پر قبضے کی کوشش غلط تھی اور امریکا نے اس کے خلاف پاکستان کو استعمال کیا تو افغانستان پر امریکی قبضہ کیسے درست ہوگیا۔ امریکا نے پہلے بھی استعمال کیا اور اب بھی کررہا ہے۔ کیا پاکستانی حکمرانوں کو اب بھی عقل نہیں آئی۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ افغانستان میں امن کی ضمانت نہیں لے سکتے۔ آپ سے یہ کہتا بھی کون ہے۔ نہ امریکا آپ پر اعتبار کرتا ہے اور نہ کابل کی حکومت۔ لیکن خواجہ صاحب، آپ نے پاکستان کو بدنام کرنے کی ذمے داری کیوں سنبھال رکھی ہے؟ انہوں نے اپنے سابق وزیراعظم نواز شریف کی وکالت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بھارت سے امن کی کوششوں کی سیاسی قیمت چکائی، انہیں مودی کا یار اور غدار کہا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت سے دوستی اور امن کی کوششیں کیا رنگ لائیں؟ کیا ان کا کچھ بھی فائدہ پاکستان کو پہنچا؟ چنانچہ اگر کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بھارت سے نواز شریف کے تعلقات ملک کے لیے نہیں اپنی ذات کے لیے تھے تو کیا یہ سوچنا غلط ہوگا؟۔