سب سے پہلے پاکستان اور اپنے گھر کو صاف رکھو

416

مظفر ربانی
جنرل (ر) مشرف نے کہا تھا کہ سب سے پہلے پاکستان آج ن لیگی حکمران طبقہ کہتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کو صاف رکھو۔ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ دونوں باتیں باہر سے ڈکٹیٹ کرائی گئی ہیں۔ مشرف نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے یہ وتیرہ اختیار کیا جب کہ موجودہ حکمراں طبقہ بھارت کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ رہا ہے کہ پہلے اپنے گھر کو صاف رکھو۔ ان دونوں باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ خبردار اگر مسلمانوں پر دنیا بھر میں کہیں بھی ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہو، اس کے خلاف کوئی ٹھوس اور با مقصد قدم نہ اٹھایا جائے۔ کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ حکمران طبقہ جمہوری ہو یا فوجی بیرونی آقاؤں کی خوشنودی ان کا اصل ایجنڈا ہوتی ہے۔ یہاں مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اس بیانیے کو کیا بیرونی ایجنڈا نہیں سمجھتے جیسا کہ وہ کے پی کے میں مساجد میں ائمہ کو سرکاری سطح پر تقرر کرنے پر کہہ رہے تھے کہ یہ بیرونی ایجنڈا ہے۔
یہاں تو بیرونی ایجنڈا کھل کر بیان کیا جا رہا ہے اور بھارت، ایران، اسرائیل اور امریکا سب کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ہماری حکومت کا تحفظ کرو پھر جو چاہو ہم سے کام لے لو، یہاں تو کھیپ کی کھیپ تیار بیٹھی ہے کہ حکمرانی کے عوض بیرونی طاقتوں کی ہر ہر خواہش کو پورا کریں گے۔ ہر قسم کی خدمت کرنے کو یہ سیکولر طبقات ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ سیکولر طبقہ جو اس ملک کی وفاداری کا دم بھرتا ہے اس کی وجہ وطن سے محبت نہیں بلکہ کمائی مقصود ہے کہ پاکستان نہ رہا تو وہ پھر کس ملک میں جا کر اپنے آقاؤں کی نوکری کریں گے۔



چودھری نثار علی خان پہلا شخص ہے کہ جس نے سکوت دریا کو توڑنے اور اس میں طلاتم پیدا کرنے کی جسارت کی اور اپنے ہی حکمران طبقے کو للکارا ہے کہ ایسے بیانیے سے بھارت کے موقف کو تقویت پہنچے گی اور خارجی سطح پر وہ اس طرح کے بیانیوں کو ثبوت کے طور پر نہ صرف پیش کرے گا بلکہ جیسا کہ نواز شریف کے پالیسی سازوں نے ان کو بھارت کے خلاف کسی قسم کی لب کشائی سے روکے رکھا پھر موقع پاتے ہی ڈان لیکس کرادیا۔ جس کا بھارت کو فائدہ ہوا کہ وہ دنیا کو یہ باور کرائے کہ پاکستان کے لوگ تو بھارت سے قربت چاہتے ہیں مگر پاکستانی فوج امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ چودھری نثار علی خان کے بقول خواجہ آصف کے بیان پر بھارت میں جو بیان بازی ہو رہی ہے اس کو بھی مد نظر رکھا جائے اگرچہ کہ بھارتی میڈیا تک پاکستانی عوام کو رسائی حاصل نہیں اس لیے چودھری نثار علی خان کے بیان پر اکتفا کرتے ہوئے وہاں وہی کچھ بولا جا رہا ہوگا جس کا سطور بالا میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے مسند اقتدار سنبھالتے ہی کشمیر کو کور ایشو کہا تھا اور اپنے پر اعتماد لہجے میں کہا تھا کہ کشمیر ایک اولین اور لازمی مسئلہ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں لیکن جوں جوں اقتدار کا نشہ اپنا رنگ دکھانے لگا تو اسفل السافلین کی سطح پر گر گئے، اب کہاں گیا وہ کور ایشو اور اولین مسئلہ شاید اقتدار کا نشہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی عقل ہی خبط ہو جاتی ہے۔



نواز شریف اینڈ کمپنی تو یہ مزہ بار بار چکھ چکی ہے پھر اس کی عقل کیسے ٹھکانے پر رہ سکتی ہے اب وہ بیرونی طاقتوں کو باور کرا رہے ہیں کہ ہم کو اقتدار سے چمٹا رہنے دو ہماری توبہ جو ہم کسی اسلامی ملک کے کسی مسئلے پر زبان بھی کھولیں، ہم اپنی قوم کو یہ کہہ کر تسلی دے دیں گے کہ پہلے اپنے گھر کی صفائی کرو۔ اس جملے کا ایک اور مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور دیگر آپریشنوں کے ذریعے ان قوتوں کو ختم کرنا بھی ہو سکتا ہے جو امریکا اور مغرب کے لیے اس لحاظ سے خطرہ ثابت ہو سکتے ہوں کہ کسی وقت بھی یہ طبقہ مصر کے اخوان المسلمین کی طرز پر جمہوریت کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اقتدار حاصل نہ کر لیں پھر پاکستان کا ایٹم بم ایک بم نہیں رہے گا بلکہ کفر کی ہر قوت کے لیے ایک ڈراؤنہ خواب بن جائے گا۔ یہ تو دنیا جانتی ہی ہے کہ امریکا اور مغرب پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ذرہ برابر برداشت کرنے کو تیار نہیں اور وہ اس کو ہر قیمت پر ختم کر دینا چاہتے ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب اس کی حفاظت کرنے اور اسلام اور پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے اور امت مسلمہ کا درد اپنے سینے میں محسوس کرنے والے موجود نہ ہوں کیوں کہ اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جو اسلام سے محبت رکھتا ہے وہی پاکستان سے محبت رکھتا ہے اور سیکولر طبقہ تو اقتدار کے بغیر پاکستان میں ایک لمحہ بھی رہنے کو تیار نہیں اقتدار ہے تو پاکستان میں ہیں اقتدار نہیں تو برطانیہ، دبئی، امریکا اور فرانس میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن ایک دین دار طبقہ جو قیادت بھی کر سکتا ہے وہی پاکستان میں رہنا پسند کرتا ہے بس یہی بات میرے یار کو پسند نہیں کہ پاکستان کے عوام کا رشتہ علمائے کرام سے اتنا مضبوط، مربوط اور مستحکم کیوں ہے؟