جہاں تک دوسری جماعتوں کو ساتھ لینے یا اعتماد کرنے کا تعلق ہے تو تحریک انصاف نے واضح کر دیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا جائے گا ۔ ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اس فیصلے سے مستثنا ہو جس سے آج کل تحریک انصاف کی گاڑھی چھن رہی ہے ۔ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جس کو عمران خان قابل گردن زدنی قرار دیتے تھے ۔ لیکن اس کو ملا کر بھی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی تعداد اتنی نہیں ہو گی کہ قومی اسمبلی میں تبدیلی لا سکے ۔ اسی کے ساتھ عمران خان قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ انہیں کون سمجھائے کہ انتخابات ہو گئے تو اسمبلی میں پارٹیوں کی پوزیشن تبدیل ہو سکتی ہے اور اگر عمران خان کو یہ گمان ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف اکثریت میں آ جائے گی اور وہ وزیر اعظم بن جائیں گے تو قائد حزب اختلاف کی تبدیلی بے معنی ہو جائے گی ۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ قائد حزب اختلاف ہی نہیں نیب چیئر مین سمیت دیگر اہم مناصب پر بھی ان کی پسند کے لوگ فائز ہوں ۔ فی الحال تو قبل از وقت انتخابات اور قائد حزب اختلاف کی تبدیلی دونوں خواہشیں ہی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں ۔ بہتر ہے کہ عمران خان صوبہ خیبر پختونخوا اور اپنی پارٹی پر توجہ مرکوز کریں ۔ گزشتہ ہفتہ تک تحریک انصاف کے ارکان اس پر متفق تھے کہ خورشید شاہ کی جگہ شاہ محمود قریشی کو لایا جائے اور اس کے لیے مہم کا آغاز بھی کر دیا تھا لیکن بدھ کے اجلاس میں کہا گیا کہ ابھی کسی کو نامزد نہیں کیا جا رہا ۔ یہ موقف میں واضح تبدیلی ہے ۔ عمران خان کو اپنے ارکان کے موقف میں اس تبدیلی کی وجہ بھی معلوم کرنی چاہیے جس سے پارٹی میں پھوٹ پڑنے کا اشارہ ملتا ہے ۔