زبان غیر سے شرح آرزو کرتے رٹو توتے

398

baba-alifایک شخص سے دریافت کیا گیا محبت کرنے کے لیے تم نے کبوتروں کا انتخاب کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا: ’’میں اپنی بیوی سے محبت کرتا تھا، وہ کسی اور کے ساتھ ایسی اڑی کہ لوٹ کر نہیں آئی۔ میں کبوتروں کو ان کے پنجروں سے نکال دیتا ہوں، اپنی چھت سے اڑا دیتا ہوں پھر بھی وہ لوٹ کر میرے پاس ہی آتے ہیں۔‘‘ عالم اسلام بھی کبوتر صفت ایسے ہی حکمرانوں پر مشتمل ہے۔ امریکا کچھ بھی کہے، کچھ بھی کرے انہیں لوٹ کر امریکی چھتری ہی پر بیٹھنا ہے۔ پچھلے دنوں صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’اسلامی انتہا پسندی اور سہولت کاروں کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہمیں حکمت عملی بدل کر اسلامی انتہا پسندی کو روکنا ہوگا۔ عرب اور اسلامی ریاستوں کو اسلامی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوشش کرنا ہوگی۔‘‘ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں اسلام کو جس طرح انتہا پسندی سے منسلک کیا ہے، ردعمل کے طور پر لازم تھا کہ مسلم ممالک کے سربراہ صدر ٹرمپ کی تقریر کا بائیکاٹ کرتے، اسے موضوع بحث بناتے، امریکا سے احتجاج کرتے اور اسے آئینہ دکھاتے۔ صرف ’’عالم اسلام کے عظیم مجاہد‘‘ ترکی کے صدر طیب اردوان نے امریکی چھتری پر بیٹھے بیٹھے اس پر احتجاج کیا اور کہا کہ ’’برمی مسلمانوں پر ظلم کو ہم نے بدھ مت دہشت گردی نہیں کہا۔ آج تک مسیحی، یہودی یا بدھ دہشت گردی کا نام نہیں سنا تو اسلام کو کیوں دہشت گردی سے منسلک کیا جاتا ہے۔‘‘



صدر ٹرمپ کی اسلامی انتہا پسندی کی اصطلاح کو اگر درست تسلیم کیا جائے تو سولہ برس سے جاری امریکی قابض افواج کے خلاف افغان طالبان کی جدوجہد بھی اسلامی انتہا پسندی ہے۔ بھارت کی درندہ صفت افواج کے خلاف اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کشمیری عوام کا احتجاج بھی اسلامی انتہا پسندی ہے۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کا انتفاضہ بھی اسلامی انتہا پسندی ہے۔ صلاح الدین ایوبی کا صلیبیوں سے مسجد اقصیٰ کو چھڑانا بھی اسلامی انتہا پسندی ہے۔ رسول کریم ؐ کا مکہ کو فتح کرنا بھی پر تشدد اسلامی انتہا پسندی ہے۔ سورہ توبہ اور سورہ انفال میں جہاد کا مفصل تذکرہ بھی اسلامی انتہا پسندی کے ضمن میں آتا ہے۔ جب کہ امریکا کا افغانستان پر قبضہ انتہا پسندی نہیں، نہ دس لاکھ سے زیادہ افغانیوں کوقتل کرنا انتہا پسندی ہے اور نہ حال ہی میں افغانستان میں ’’بموں کی ماں‘‘ جیسے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے بم کا استعمال انتہا پسندی ہے۔ پاکستان پر ڈرون حملے کرکے ہزاروں انسانوں کو آگ میں جلا دینا انتہا پسندی نہیں ہے۔ عراق میں صدام حسین کے دور میں ادویات کی پابندی سے پانچ لاکھ بچوں کی اموات جو جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم سے بھی کہیں زیادہ ہیں انتہا پسندی نہیں ہے اور اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ کے مطابق یہ بات ان کے لیے قابل قبول تھی اور اس پر انہیں کوئی شرمندگی بھی نہیں تھی۔ یہ سوچ اور یہ طرزعمل انتہا پسندی نہیں ہے۔ مسلم دشمنی میں weapons of mass destruction کے جھوٹ کا سہارا لے کر عراق جیسے ہرے بھرے اور خوشحا ل ملک کو برباد کردینا انتہا پسندی نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے قتل میں اسرائیل کی مددکرنا دہشت گردوں کی مدد اور سہولت کاری نہیں ہے۔



کشمیر پر مظالم اور گجرات کے مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی جیسے قصائی کو گلے سے لگانا اور فطری اتحادی کا درجہ دینا دہشت گردی کو سپورٹ کرنا نہیں ہے حالانکہ گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام پر خود امریکا نے مودی کو امریکا کا ویزا جاری کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ شام کے مسلمانوں کے قاتل بھیڑیے بشار الاسد کی شام کے مسلمانوں پر کلسٹر بم، پٹرول پمپ، کیمیائی ہتھیاروں اور دیگر ممنوع اسلحہ سے قتل وغارت میں امریکا کا ساتھ دینا دہشت گردی کی سپورٹ اور سہولت کاری نہیں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی اور وسائل سے مالا مال دہشت گرد تنظیم سی آئی اے کو چلانا دہشت گردی اور انتہا پسندی نہیں ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب امریکا اور مغربی ممالک نے اسلام کو اپنا اگلا ہدف قرار دیا تو ان کا درد سر وہ جہادی تنظیمیں اور استعمار کے خلاف عسکری اور سیاسی جدوجہد کرنے والی جماعتیں تھیں جو امریکی اور مغربی ریشہ دوانیوں، سازشوں اور قابض افواج کے خلاف تھیں اور انہیں اپنے اپنے اسلامی ممالک سے نکالنے کے لیے کوششیں کررہی تھیں۔ ان کی مقدس جدوجہد کو برباد اور بدنام کرنے کے لیے مغرب کے ذہنوں نے پر تشدد انتہا پسندی، اسلامی انتہا پسندی، اسلامی دہشت گردی کی اصطلاحات ایجاد کیں۔ یہی نہیں جو لوگ ان سرفروشوں سے ذہنی، فکری اور مالی ہم آہنگی رکھتے تھے انہیں دہشت گردی کے سہولت کار کا پُر فتن نام دے دیا گیا۔ مقصد امریکی، مغربی اور دیگر قوتوں کے قبضہ کے خلاف ہر قسم کے جدوجہد کو اور مسلمانوں کی مزاحمت کو ختم کرنا تھا۔ امریکی اور مغربی ثقافت کے ساتھ ساتھ ان اصطلاحات کو بھی مشنری جذبے کے ساتھ اسلامی ممالک میں فروغ اور رائج کیا جانے لگا۔ مغرب کے ایجنٹ دانشوروں، جمہوری اور مغرب سے مرعوب مفکرین نے دن رات ان اصطلاحات کی جگالی کرنا شروع کردی۔ امریکن فنڈڈ میڈیا اس کوشش میں آگے آگے تھا۔



یوں رفتہ رفتہ عام اور خاص لوگوں نے بھی ان اصطلاحات کی تکرار شروع کردی۔ یہ سوچے بغیر کہ ان اصطلاحات کا مطلب اور مقصد کیا ہے۔ اس ماہ کی 18تاریخ کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے وفد نے جنرل ہیڈکواٹر (جی ایچ کیو) کا دورہ کیا۔ وفد کی خوش نصیبی چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ ملاقات کا حاصل اس عزم کی تجدید تھی کہ پر تشدد انتہا پسندی کے عفریت کے خلاف ہم آہنگی کے ساتھ جدوجہد جاری رہے گی اور یہ جدوجہد اجتماعی صلاحیت اور مشترکہ ذمے داری کے اصول کے تحت پوری قوم پر لاگو ہوگی۔ خواجہ حیدر علی آتش نے کہا تھا:
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
شعر میں غیر کی زبان میں آرزو کے بیان نہ کرنے کو خوبی اور بہتر تصور کیا گیا ہے کیونکہ ہر معاشرے میں، ہر تہذیب میں اپنی زبان میں بات کرنا ہی پسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ ان اصطلا حات کا اپنانا ایساہی ہے جیسے مسلمانوں کے السلام علیکم کے جواب میں کفار کے ’’السام علیکم‘‘ کو اختیار کرنا۔ السلام علیکم کا مفہوم ہے آپ سلامت رہیں جب کہ السام علیکم کے معنی ہیں آپ برباد ہوجائیں۔ ہم اسلام دشمن مغربی اصطلا حات کے معنی، مطلب اور مقصد سے بے نیاز رٹو طوطے کی طرح ان کی تکرار کیے جارہے ہیں اور شاداں وفرحاں ہیں۔ اپنے مصطفی زیدی نے کہا تھا
یوں تو ہرجوہر گفتار بڑا وصف مگر
وجہ بیماری کردار نہ ہونے پائے