جھوٹی گواہی کے باعث ملزمان کا بری ہونا اللہ کا عذاب ہے ،جسٹس کھوسہ

300

اسلام آباد (آن لائن ) عدالت عظمیٰ میں فوجداری مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سچے گواہ پیش کیے بغیر نظام عدل نہیں چل سکتا ، جب گواہ سچے نہیں ہوں گے تو عدالت بھی کچھ نہیں کر سکے گی ،جب جھوٹے گواہ عدالتوں میں پیش ہوں گے ملزمان بری ہوتے رہیں گے ، جھوٹی گواہی کی وجہ سے ملزمان کا بری ہونا اللہ کا عذاب ہے جبکہ عدالت عظمیٰ
نے 12سال بعد بھابی کے قتل کے الزام میں ماتحت عدالتوں سے عمر قید کی سزا پانے والے ملزم جاوید کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے ۔ جمعرات کے روز کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی دوران سماعت ملزم کے وکیل صدیق خان بلوچ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اور گواہان کے بیانات میں تضاد ہے ،گھر کے ایک کمرے میں خنجر کے 28وار سے قتل ہوا ۔مدعی دوسرے کمرے میں موجود تھا اس کو سنائی تک نہیں دیا ۔ یہ بات باعث حیرانی ہے کہ مقتولہ نے شور شرابہ بھی نہیں کیا؟



مقدمے کے گواہان بعد میں بنائے گئے ہیں ۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اصل گواہان گواہی کے لیے تیار نہیں ہوتے ،والدین بدلہ لینے کے لیے جھوٹے گواہ کھڑے کر دیتے ہیں ،جھوٹے گواہوں کی وجہ سے ملزم بری ہوتے ہیں پھر کہا جاتا ہے عدالت نے مجرم کو چھوڑ دیا ، لوگ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ، جھوٹی گواہی دینا بھی ایک جرم ہے ،جسٹس کھوسہ نے مزید کہا کہ سچے گواہ پیش کیے بغیر نظام عدل نہیں چل سکتا ،جب گواہ سچے نہیں ہوں گے تو عدالت بھی کچھ نہیں کر سکے گی ،جھوٹی گواہی ہوگی تو ملزمان بری ہی ہوں گے ، جھوٹی گواہی کی وجہ سے ملزمان کا بری ہونا اللہ کا عذاب ہے ۔ بعدا زاں عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا اور قرار دیا کہ استغاثہ کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے، ملزم پر 2005ء میں فیصل آباد میں اپنی بھابھی کو قتل کرنے کا الزام تھا ۔ٹرائل کورٹ نے ملزم کو پھانسی کی سزا سنائی جبکہ ہائی کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کردیا تھا تاہم عدالت عظمیٰ نے ملزم کو شک کا فائدہ دے کر 12سال بعد بری کردیا ہے ۔ یا در ہے کہ ملزم کیخلاف اس کے حقیقی والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔