محرم الحرام: صبر وشکر کا مہینہ ۔ ۔از مولانا عبدالرحمن

460

’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے۔ اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں، یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھوکہ اللہ (تعالیٰ) متقیوں کے ساتھ ہے۔ (سورۃ التوبہ، آیت36)
ماہ محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک سے اسلامی سال کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ ماہ مقدس گوں ناگوں فضائل وخصائص کی بنا پر منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے کی تقدیس و عظمت ابتدائے آفرینش سے ہے۔ اس مہینے کی عظمت و رفعت کا اندازہ ان حوادث و واقعات سے لگایا جاسکتا ہے جو اس ماہ مقدس سے وقوع پذیر ہوئے۔ اسلامی تاریخ میں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان، پہاڑ، سمندر، لوح و قلم، جبرئیل امین اور دیگر فرشتوں کو پیدا کیا۔ اسی مہینے میں سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی مہینے میں ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی ماہ مقدس کے پہلے عشرے میں سیدنا نوح علیہ السلام کو طوفان سے نجات عطا ہوئی۔ یہی وہ مقدس مہینہ ہے جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر آتش نمرود کو گل گلزار بنایا اور اسی مہینے میں فرعون غرق آب ہوا اور بنی اسرائیل کو اس کے ظلم سے نجات ملی تھی۔
یہی وہ ماہ مقدس ہے جس میں سیدنا یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ سے رہائی عطا فرمائی اور اسی مہینے میں سیدنا ادریس علیہ السلام مکان علیا میں پہنچے اور یہی وہ مہینہ ہے



جس میں سیدنا ایوب علیہ السلام اٹھارہ سال کی بیماری سے شفا یاب ہوئے اور اسی مہینے میں سیدنا داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، سیدنا سلیمان علیہ السلام کو سلطنت ملی تھی۔ اسی عاشورہ محرم میں اللہ رب العالمین عرش پر مستوی ہوا اور اسی مہینے میں قیامت کا عظیم حادثہ برپا ہوگا۔ (ملخص الحدیث از غنیۃ الطالبین مصنفہ سید الطائفہ شیخ عبدالقادر جیلانی)
اس حدیث سے محرم الحرام بالخصوص پہلے عشرے کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ ماہ محرم الحرام کی اہمیت سورۃ توبہ کی درج بالا آیت کریمہ سے واضح ہوتی ہے۔ جس میں اللہ رب العالمین نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے اور چار مہینوں کی حرمت و بزرگی کا اعلان فرمایا۔ ماہ محرم الحرام حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس ماہ مقدس کی حرمت وعظمت نہ صرف اسلام بلکہ قبل از اسلام بھی مسلم تھی۔ چنانچہ اسلام سے پہلے کے لوگ عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے اختتام پر عید کی طرح خوشیاں مناتے تھے۔ ابتدائے اسلام میں عاشورہ محرم کا روزہ فرض تھا البتہ جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تب عاشورہ محرم کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن استحباب کا درجہ باقی ہے، جس کاجی چاہے رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر رحمۃللعالمینؐ تک تمام انبیا ورسل کا ایک ہی دین تھا اور وہ اسلام ہے۔ لہٰذا جب انبیاء کرام کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہ اسلام ہی کا ذکر خیر ہوتا ہے۔ اس لیے اسلامی تاریخ میں عاشورہ محرم الحرام کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے۔ جیساکہ اوپر بیان کیا گیا کہ آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام تک بے شمار انبیا ورسل کی زندگیوں میں اس ماہ مبارک کی مناسبت سے عظیم واقعات کا تسلسل موجود ہے، اس کائنات کو خالق و مالک نے اسی مقدس مہینے میں تخلیق فرمایا۔ سب سے خوبصورت تخلیق انسان کو پیدا کیا اور جب ابوالبشر آدم علیہ السلام نے فطری تقاضوں سے مغلوب ہو کر نادانی کی اور جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیے گئے تو خو ب گڑگڑا کر اپنے رب سے معافی کے طلبگار ہوئے اور اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔



اسی طرح اللہ نے تمام فرشتوں، زمین، آسمان، پہاڑ، سمندر وغیرہ تخلیق فرمائے کہ جن سے حضرت انسان استفادہ کرتا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خوبصورت دنیا تخلیق فرمائی لہٰذا یہ ماہ مقدس اپنے رب کی ان نعمتوں کی تخلیق و بخشش پر شکر گزاری کا مہینہ ہے۔ اگر کائنات پر غور و فکرکیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خالق و مالک نے ہمارے آرام و راحت کے ساتھ ساتھ نفع و استفادے کے لیے ہمہ صفت کہکشائیں تخلیق فرمائی ہیں اور ایک حسین و جمیل گلدستہ سجا کر پیش کر دیا، تاکہ ہم ان نعمتوں پر اس کا شکر بجا لائیں اور جتنا بھی احسان مانیں وہ کم ہے۔ ماہ محرم الحرام اللہ کی نعمتوں اور بخششوں کے اظہارکا ماہ تمام ہے۔ مندرجہ بالا واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مہینے کی کیا اہمیت ہے۔ قبل از اسلام بھی حرمت والے مہینوں کا بڑا احترام کیا جاتا تھا اور عرب جہالت کے باوجود ان مہینوں میں جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے باز رہتے تھے۔ البتہ وہ ان مہینوں میں تاخیر و تقدیم کرکے اپنی مطلب برآری کر لیتے تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں وضاحت فرما کر پورے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمادیے اور حرمت والے مہینوں کی تعیین بھی فرما دی جو ابتدائے آفرینش سے اسی ترتیب سے تھے، ماہ محرم الحرام حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔



حدیث میں ہے کہ جب رحمت عالمؐ مکے سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ اس پر فرمایا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی، اس دن سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حقدار ہیں اس لیے آپؐ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری و مسلم)
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ رمضان المبارک کے بعد محرم الحرام کا روزہ رکھنا زیادہ افضل ہے۔ (مسلم)
اسی طرح فرمایا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھنے سے اللہ تعالیٰ ایک سال کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ (مسلم)
رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اب عاشورہ کا روزہ فرض نہیں۔ جو چاہے رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ لیکن آپؐ نے خود رکھا۔ یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لیے آپ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ زندہ رہا تو محرم کی نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا لیکن آئندہ سال آپؐ محرم آنے سے پہلے خالق حقیقی سے جا ملے۔
یہ روزے اللہ رب العالمین کے حضور شکران نعمت کے لیے ہیں جو اس نے انبیاء کرام پر فرمائے۔ البتہ بدقسمتی سے امت مسلمہ نے اس ماہ محرم الحرام میں مسنون عبادت کو چھوڑ کر مختلف قسم کی بدعات و رسومات کو اختیار کر لیا ہے ۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں حاصل ہوں تو ان پر اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کیاجائے۔ نماز، روزہ، ذکر و اذکار شکر الٰہی بجا لانے کے بہترین ذرائع ہیں۔ خوشی کے اظہار کے جو طریقے لہو و لعب کے ہم نے ایجاد کرلیے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی مصیبت یا غم آجائے (جیساکہ اس مہینے میں سیدنا فارو ق اعظم رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادتیں واقع ہوئیں۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات اس مہینے میں شہادت کے منصب پر فائز ہوئیں) تو اسلام کا حکم ہے کہ ان مصائب و آلام پر صبرکیا جائے اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ہمیں خوشی و غمی دونوں کے اظہار کے آداب و طریقے سکھاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نعمتیں عطا فرمائے تو اظہار تشکر کے لیے نماز ادا کریں، ذکر و اذکارصدقہ و خیرات کریں۔ اس کے برعکس اگر کوئی مصیبت یا پریشانی آ جائے تو اس پر واویلا یا بے صبری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مومنانہ طرز پر صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ اس موقع پر بھی اپنے رب کی بارگاہ میں جبیں نیاز کو جھکا کر اسی سے لو لگائیں۔ نمازیں اد کریں اور ذکر وغیرہ کے ذریعے اللہ کی بڑائیاں بیان کریں اور نبی رحمتؐ کی سنتوں پر عمل پیرا رہ کر رب کی رضا کے حصول کی کوشش کریں۔



اس مہینے میں جہاں اسلامی تاریخ کے عظیم سانحات رونما ہوئے مثلاً خلیفہ راشد سیدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت ہوئی ۔ اسی طرح تاریخ اسلام کا دوسرا اندوہناک واقعہ سردار نوجوانان جنت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا کے ریگزار میں شہادت تھی جو خانوادہ رسولؐ نے راہ حق میں پیش کی۔ تاہم اس دلگداز وجاں سوز مرحلے پر بھی خاندان رسالت کے پائے استقامت میں لرزش پید انہیں ہوئی، بلکہ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ نے اپنے خیمے میں تشریف لاکر اہل بیت کو مخاطب فرمایا کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ جب میں دشمن کے ہاتھوں قتل کر دیا جاؤں تو تم میرے سوگ میں گریبان چاک نہ کرنا، نہ اپنے رخساروں پرطمانچے مارنا، نہ اپنے منہ کو زخمی کرنا ۔ (اسوۂ حسین)
معلوم ہوا کہ غم و خوشی کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے رب سے تعلق استوار رکھا جائے اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کا شکر اور مصائب و آلام پر صبر کیا جائے۔ ہر دو مواقع پر نماز، ذکر و اذکار، صدقہ وخیرات اور دیگر نیک کام کیے جائیں جو شریعت نے واضح فرمائے ہیں۔ ضروری ہے کہ عشرہ محرم الحرام میں نو دس یا دس گیارہ تاریخ کے روزے رکھے جائیں۔ اس کے برعکس غیر مسنون اعمال سے اجتناب برت کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوکتاب و سنت کے مطابق شکر وصبر کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقی طور پر دین پر عمل پیرا ہونے کی سعادت نصیب فرمائے۔
آمین یا رب العالمین