شہادت حضرت امام حسین ۔ ۔ ازمحمد آصف اقبال

374

شہادت امام حسینؓ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے جس کو نہ صرف اسلامی بلکہ دنیا کی تاریخ میں بھی اہم مقام حاصل رہا۔ یہ شہادت کیوں پیش کی گئی؟ اس کے اسباب کیا تھے؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحاق کا دعویٰ رکھتے تھے۔ تاریخ کے بغور مطالعے سے جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہورہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور، اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اگرچہ اس کے نتائج ابھی سامنے نہیں آئے تھے لیکن ایک صاحب بصیرت انسان کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ اسلامی ریاست کس کروٹ تبدیل ہو رہی ہے۔ اس کا راستہ بدل رہا ہے اور اور جس راہ پر وہ مڑ رہی ہے وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گی۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام نے دیکھا اور صحیح رخ پر ایک بار پھر لانے کی اپنی ساری سعی و جہد کر ڈالی، یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا۔ اسلامی ریاست کی اوّلین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے عملی رویے سے بھی اس عقیدے اور یقین کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے کہ ملک اللہ کا ہے، باشندے اللہ کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں اور رعیت اس کی غلام نہیں



لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا اس میں اللہ کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی تھا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہ کا رہا ہے یعنی ملک بادشاہ کا، رعیت کی جان، مال، آبرو ہر چیز کا مالک بادشاہ ہے۔ اللہ کا نظام اگر نافذ ہوگا تو عوام پر، بادشاہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اسلامی ریاست کی سنگ بنیاد یہ تھی کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ مرضی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کردیں۔ بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کوئی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہوں۔ جب تک کسی آدمی کو بیعت حاصل نہ ہو وہ اقتدار میں نہ آئے اور جب سارے لوگوں کا اعتبار اس سے اٹھ جائے تو اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک اسی قاعدے سے برسرِ اقتدار آیا۔ لیکن یزید ولی عہدی نے اس قاعدے کو الٹ دیا۔ اس سے خاندان کی موروثی بادشاہتوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کی انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔
اب حکمران طاقت سے بر سرِاقتدار آنے لگے، طاقت اور اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اسی جبری بیعت کو کالعدم قرار دیے جانے پر خلیفہ منصور کے زمانے میں امام مالک کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے ہاتھ شانوں سے اکھاڑ دیے گئے۔ یہ ہے وہ ملوکیت اور خلافت کا فرق جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بہت سے اہم نکتوں میں سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ خلافت میں حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے لیا جائے جن کے علم تقوی اور اصابت رائے پر لوگوں کو اعتماد ہو لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شورائی دور کا اختتام ہوگیا اور بادشاہ اپنی مرضی سے فیصلے کرنے لگے۔



قوموں کا عروج و زوال نہ مادی قوتوں پر منحصر ہے، نہ سائنس و ٹیکنالوجی کا اس میں عمل دخل ہے اور نہ علمی ترقیوں پر ہی اس کا انحصار ہے۔ بلکہ یہ خالصتاً اخلاقی اور معنوی اقدار کے اوپر منحصر ہے۔ یہ انسان کے اخلاقی کسب واعمال کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں قومیں عروج و زوال کی طرف جاتی ہیں۔ قرآن حکیم میں جو قوموں کے عروج و زوال کا نتیجہ ہے وہ ایک فرد واحد کی زندگی سے بلکل مختلف ہے۔ فرد اس بات پر مجبور ہے کہ وہ موت کی طرف جائے اس میں اخلاقی زندگی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اگر کوئی صالح ہوگا تو اس کو بھی موت آئے گی اور کوئی فاسق تو اس کو بھی موت۔ لیکن قوموں کا معاملہ ایسا نہیں۔ قومیں لازماََ موت سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔ ان کی موت اس لیے واقع ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرتی ہیں۔ حالانکہ فرد کی موت کا تعلق اس کے اپنے نفس پر ظلم کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی فطری موت مرتا ہے۔ کسی قوم کا مٹ جانا یا اس کی موت واقع ہونا، ناگزیر عمل نہیں ہے جو اسے لازماََ پیش آئے۔ جس طرح کوئی فرد اپنی ذاتی زندگی میں اچھا بننا چاہے تو وہ بن سکتا ہے اور برا بننا چاہے تو برا بن سکتا ہے۔ اسی طرح قومیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اچھائی کی روش پر چلنا چاہیں تو چل سکتی ہیں، ترقی کی راہیں طے کر سکتی ہیں، اخلاقی اور معنوی اقدار حاصل کر سکتی ہیں اور اگر برائی کی طرف جانا چاہیں، اپنے اوپر ظلم کریں، دنیا کے اندر ظلم و فساد کا دروازہ کھولیں تو وہ تباہی کی طرف جا سکتی ہیں اور یہ عمل ایسا بھی نہیں ہے کہ پلٹایا نا جاسکے۔ آدمی جوان ہونے کے بعد بچہ نہیں بن سکتا اور بوڑھا ہونے کے بعد جوان نہیں لیکن قومیں زوال پذیر ہونے کے بعد ایک بار پھر سر بلند ہو سکتی ہیں۔

اگر یہ بات صحیح نہ ہوتی تو انبیاء کرام کا اس قدر طویل سلسلہ نہ ہوتا۔ وہ گمراہ لوگوں کی ہدایت کی تبلیغ نہ کرتے، اندھیروں سے اجالے کی طرف لوٹانا اور مصیبت کے کاموں سے چھٹکارا دلانا ان کا مقصد نہ ہوتا اور بگڑی ہوئی قوموں کے سامنے اپنا پیغام لے کر نہ کھڑے ہوتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نسخہ ایسا ہے جس سے کوئی قوم خواہ کتنی ہی نیچے گر چکی ہو اگر وہ چاہے تو دوبارہ عروج کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔ انھوں نے قوموں سے وعدہ کیا اور خوشخبری بھی دی کہ اگر تم نے اپنی اصلاح کر لی یا تم اس کے لیے تیار ہوگئے تو تم خواہ کتنے ہی نچلے درجے میں کیوں نہ چلے گئے ہو تم ہی کامیاب ہو گے اور سرخروئی تمہارے قدم چومے گی۔ خود نبی کریمؐ نے عرب کو یہ پیغام سنایا کہ اگر تم نے میری دعوت قبول کر لی تو تم عرب اور عجم دونوں کے مالک بن جاؤ گے اور دیکھنے میں آیا کہ سائنس و ٹیکنالوجی سے عاری لوگ دنیا کے امام بن گئے۔ قرآن نے اس بات کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ ترجمہ: ’’اب کیا نافرمان لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک ہو گا‘‘۔ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں، انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا اور کہا کہ ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ معلوم ہوا یہ فساد کئی لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے برپا ہوا اور اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی۔



قوم عاد کا تذکرہ اس طرح کیا گیا: ’’عاد کو دیکھو جب انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ’’ہم سے طاقتور کون ہے؟ اور اس غرور کے اندر آگئے تو ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔‘‘ قوم عاد پر خدا کی پھٹکار پڑنے اور انہیں دور پھینکنے کی وجہ بھی یہی تھی: ’’یہ ہیں عاد اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسولوں کی بات نہ مانی اور ہر جبار دشمن کی پیروی کرتے رہے‘‘۔ (ھود 59)۔ لہٰذا یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم کو بھی زوال و تباہی سے سابقہ پیش آیا، وہ بس اس لیے کہ اس نے اللہ کے احکامات سے بغاوت کی، ظلم اور نا انصافی کو فروغ دیا اور اس طریقے کی پیروی کی جو بدکار لوگوں کا رہا ہے۔

جس طرح ایک انسان کی رواں دواں زندگی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو بھرپور غذا ملتی رہے ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے دین، اس کی فکر، اس کی نظر اور اس کے اعمال کو صحیح رخ پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ایمانی غذاؤں کا استعمال کرتا رہے جو اس کو وقتاً فوقتاً تقویت پہنچانے والی ہوں۔ یہ ایمانی غذا اس صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب وہ اس کا شعوری طور پر اہتمام کرے۔ اس کے لیے جہاں دن میں پانچ مرتبہ اللہ رب العزت کی سامنے حاضری کا ایک ذریعہ ہے تو وہیں اللہ کا ذکر اور اس کی عبادات کو بجا ہر لمحہ لانا بھی معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ اہتمام بندہ مومن خوشی اور غم کے ہر موقع پر کرتا ہے۔ یہی وہ عظیم مقصد ہے جس کی جانب واقعہ امام حسینؓ ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔
یہ وہ موقع ہے جب تذکرہ امام حسن و حسینؓ کے ساتھ ایک عظیم مقصد کا عہد کیا جاتا ہے۔ قربانی کے اعلیٰ ترین نمونے کو یاد کیا جاتا ہے اور اپنی جان و مال اور صلاحیتوں کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ عہد صرف زبانی حد تک ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثرات انسان کے ظاہر و باطن پر محسوس کیے جاتے ہیں۔ نتیجۃً اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف مسلمانوں کو قوت حاصل ہوتی ہے جو ان کے اندر خدا پرستی کی توانائی داخل کر دیتی ہے تا کہ وہ برابر چست، فعال اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے صراط مستقیم پر قائم ہوجائیں۔ جس طرح یہ حقیقت ہے کہ کائنات کی ہر شے مستقل حرکت پذیر ہے اس میں ٹھراؤ نہیں اور ٹھراؤ آ جائے تو یہ دنیا تباہ ہو سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح بندہ مومن کا ہر عمل اس کے ایمان کو متحرک رکھنے کا ذریعہ بننا چاہیے، برخلاف اس کے فکر منجمند ہونے سے نہ صرف فرد بلکہ پوری قوم و ملّت ہلاکت و بربادی سے دو چار ہوتی ہے۔ اور یہی وہ تحریک ہے جو ہمیں امام حسن اور امام حسینؓ کی زندگی سے ملتی ہے۔ آپ کے سامنے سیاسی حالات نے آنکھیں دکھائیں، وطنی مفاد آڑے آئے، وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار کیا، مصلحتوں نے دامن پکڑا، مشکلات نے راستہ روکا، ہلاکتوں کا طوفان نمودار ہوا لیکن آپ نے اپنی آواز میں پستی نہ آنے دی آپ نے خلافت اور ملوکیت کے درمیان دیوار کھینچ دی اور ثابت کر دیا کہ عقیدے کی پختگی اور صبر و استقامت سے ہی ایک مسلمان کی زندگی دنیا و آخرت میں کامیابی و سرخروئی حاصل کر سکتی ہے۔ اور آج یہ زندہ مثالیں مصر و فلسطین شام و عراق اور افغانستان و دنیا کے مختلف مقامات پر اسلامی نظام کے قیام میں سعی جہد کرنے والے مسلمان اپنے کردار سے پیش کر رہے ہیں۔