کربلا کا پیغام ۔ ۔ از حسن افضال

389

ہر سال محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے اذہان میں اس عظیم معرکے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جو آج سے کئی سو برس قبل عراق کے ایک بے آب و گیاہ تپتے صحرا میں جو اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے کسی کرب اور بلا کی زمین ہے، حق و باطل کی قوتوں کے مابین رونما ہوا۔ اس معرکۂ حق و باطل کے ساتھ دینوی اقتدار کا جاہ و چشم، جابر سلطان کی ہیبت، مادی وسائل کی فراوانی اور طاغوت کی حق کو نابود کرنے کی یہہ رعونیت بام عروج پر تھی جبکہ حق کے جلو میں حق کی معرفت رکھنے والے وہ چنیدہ غیر معمولی افراد تھے جن کی زیادہ سے زیادہ تعداد بھی 200 نفوس سے کم تھی اور جنہیں بخوبی علم تھا کہ اس معرکے میں نہ مال غنیمت ہاتھ آئے گا، نہ اقتدار ملے گا اور نہ ہی انہیں کسی انعام و اکرام اور منصب کی خواہش نے اسے تپتے صحرا میں مجتمع کیا تھا بلکہ اس کے برعکس انہیں بھوک کی اذیت، پیاس کی شدت اور سروسامانی کے عالم میں سفاک موت کا سامنا تھا۔ یہ چنیدہ افراد حسین ابن علیؓ کی مصیت میں آہنی عزم اور چٹانی حوصلے کے ساتھ ایک مقصد کے تحت میدان عمل میں اترے تھے اور وہ عظیم موصد تھا اعلائے کلمۃ الحق اور اس دین حنیف کو حیات نوع بخشا، جس کی بنیاد آدمؑ نے ڈالی اور جس کی تکمیل رسول عربیؐ کے ہاتھوں انجام پائی۔کربلا میں یزید کی حکومت تمام انبیاؑ کی دین حق کی خاطر انجام دی گئیں ریاضتوں اور قربانیوں کی نابودی کے در پے تھے، اللہ کے دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جارہا تھا، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا کو پیش کیا جارہا تھا، شعائراسلام کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں، اہرمن یزدان کے منصب پر قابض ہورہا تھا، دیر حرم سے طواف کا تقاضہ کررہا تھا، ظلمات نے نور پر دھاوا بول دیا تھا، دیو سیہہ تخت سلیمان کی آرزو کررہا تھا، ابلیسیت احدیت سے ٹکرانے جارہی تھی اور دین خدا پر خاقانیت حملہ آور تھی۔ ایسے سرکشیدہ، ابتر اور پر ہول ماحول میں جہاں حق گوئی ناقابل معافی بلکہ قابل گردن زدنی جرم بن چکی ہو اصلاح معاشرہ کے لیے انقلابی اقدامات ناگزیر تھے۔ لہٰذا ان حالات میں حسین ابن علیؓ جو اپنے جد محمد عربیؐ کے دین کے حقیقی وارث تھے، نے رسول اکرمؐ کی حدیث مبارکہ ’’حسین منی وانا من الحسین‘‘ کی عملی تفسیر اپنے، اپنے خانوادے اور وفا شعار و مقدس اصحاب کے پاکیزہ لہو سے رقم کرکے اسلام کو دائمی حیات بخش دی۔ کربلا میں حسین ابن علیؓ نے ظالم اور سفاک حکومت کو اپنی بیعت کا خراج پیش کرنے کے بجائے سرکٹا کر کل انسانیت سے خراج عقیدت وصول کیا اور فتح و شکست کے معنی و مفہوم بدل ڈالے۔ انسانیت حسینؓ اور دیگر شہدا کربلا کو گزشتہ چودہ صدیوں سے خراج عقیدت پیش کرتی رہی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی۔



حسینؓ نے تقریباً چودہ صدیاں قبل ایک ظالم حکمران کی بیعت سے انکار کرکے حق اور سچ کے متوالوں کے لیے نہ صرف ایک روشن مثال قائم کی بلکہ ان کے لیے ایک واضح راہ عمل بھی متعین کردی کہ حق کے راستے میں کسی مصلحت، لیت و لعل اور اگر مگر کی گنجائش نہیں ہوتی۔ حسینؓ، ان کے رفقا اور اہل و عیال کی فقید المثال قربانیوں نے عقل انسانی کو آج بھی ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ کس طرح اور کس قدر نامساعد اور اعصاب شکن حالات میں مختلف قبیلوں، خاندانوں اور مختلف عمروں اور مزاجوں کے افراد جن میں بچے، نوجوان اور ضعیف العمر افراد بھی شامل تھے، ایک مرکز اور ایک مقصد کی خاطر اپنی قیمتی جانیں دینے پر مجتمع اور متحد ہوگئے تھے۔ وہاں موجود ہر شخص نصرت امام میں طاغوت سے لڑتے ہوئے شہید ہونے میں اپنے ساتھیوں پر سبقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ تاریخ انسانی کا یہ مْحیّر العقول واقعہ تا قیامت انسانوں کو ظلم و جور، ناانصافی اور جبر واستبداد نبرد آزما ہونے کی جرات و حرارت بخشتا رہے گا۔واقعۂ کربلا کمزوروں کو حوصلہ، مظلوموں کو جرات پیکار، بے وسیلوں کو خدائے لم لیزل پر توکل اور غم زدوں کو زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔



افسوس ہم نے کربلا کے سانحہ فاجعہ کو صرف اور صرف نالہ و شیون تک محدود کردیا ہے۔ ہم حق وباطل کے اس عظیم واقعے کی یاد تو بڑی شد ومد سے مناتے ہیں لیکن اس میں پنہاں انسانیت کی فلاح اور رہنمائی سے ان زریں اصولوں اور ضابطوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے جن کی سربلندی کی خاطر امام عالی مقام اور دیگر شہدائے کربلا نے اپنی قیمتی جانیں قربان کی تھیں۔ اگر ہم اسلام کے سچے پیروکار ہونے اور امام عالی مقام سے عقیدت و مودت رکھنے کے دعویدار ہیں تو ہمیں اپنی موجودہ روش کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں نفرت، عداوت، بعض، ریاکاری، مکر وفریب، تکبر، حسد، لالچ اور بے راہ روی کے زہریلے کانٹوں سے اپنے دامن کو بچانا ہوگا اور سب سے بڑھ کر لسانی، گروہی اور فرقہ واریت کی دیواروں کو گرانا ہوگا۔ شہدائے کربلا کی یاد منانے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم گروہوں اور مختلف طبقات اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ملت واحدہ کے طور پر خود کو پیش کریں اور اپنے معاشرے سے ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ کردیں اسی میں ہماری بقا ہے اور یہی کربلا کا پیغام ہدایت ہے۔