پاک چین دوستی کے پھیکے پڑتے رنگ 

419

پاکستان میں چین کے سفیر سن وی ڈونگ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک چین دوستی پر ایک ایسا تبصرہ کیا ہے کہ جس کی منطق اور زاویہ بظاہر پاک چین دوستی کو مزید مضبوط اور گہرا کرتا ہوا نظر آتا ہے تاہم اگر ’’خارجہ پالیسی‘‘ کے نازک امور میں استعمال کیے جانے والے محتاط اور معنی خیز الفاظ کے کھیل کو مد نظر رکھتے ہوئے سفیر موصوف کے ان الفاظ ’’پاکستان اور چین اتحادی نہیں دوست ہیں‘‘ ہم شراکت داری پر یقین رکھتے ہیں، ہم امن، تعاون، انصاف اور کامیابی کا خیر مقدم کرتے ہیں جب کہ ہمارا بیرون ملک تعاون سرد جنگ کی ڈاکٹرائن اور تصادم کو مسترد کرتا ہے، سی پیک خوشحالی کے لیے ہے‘‘۔ کا تجزیہ کیا جائے تو ’’پاک چین دوستی‘‘ کا منظر تبدیل اور رنگ پھیکے پڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان اور چین اتحادی نہیں دوست ہیں‘‘ اتحادی ہونے سے انکار اور دوستی کا اقرار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ اتحادی اور دوست میں کیا فرق ہوتا ہے؟۔ کیا کوئی ایسی دوستی یا دوست بھی ہوتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں اتحادی نہ ہو، مزید یہ کہ کیا کوئی ایسا اتحادی بھی ہوتا ہے کہ جو اتحادی توہو مگر دوست نہ ہو، کیا دو مخالف بھی اتحادی ہو سکتے ہیں؟ یا یہ کہ کوئی اتحادی دوستوں کے بغیر بھی وجود میں آسکتا ہے۔۔۔؟ چین جیسے عالمی طاقت کے حامل ملک کے سفیر نے پاکستان اور چین اتحادی نہیں دوست ہیں کے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں ضرور کوئی ’’پیغام‘‘ ہے تب ہی تو اتحادی اور دوست میں فرق رکھاگیا ہے۔ ہمارے نزدیک دوست ہی اتحادی ہوتے ہیں اور اتحادی ہی دوست ہوتے ہیں۔ اتحادی اور دوست کے درمیان فرق کی جو منطق بیان کی گئی ہے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ سفیر موصوف پاکستان کو محض دوست قراردیتے ہوئے کس کے اتحادی بننے چلے ہیں۔



سفیر سن وی ڈونگ صاحب کا یہ کہنا کہ ’’ہم دوستی اور شراکت داری پر یقین رکھتے ہیں‘‘ کے الفاظ کے جو مطلب ہم سمجھ پائے ہیں وہ کچھ اس طرح ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کو دوستی کے دائرے میں شامل کرکے اختلافات دور کرنے، مفاہمت پیدا کرنے اور باہمی اعتماد بحال کرنے کی بات کررہے ہیں جب کہ شراکت داری کا مطلب سرمایہ کاری ہے یعنی خالص کاروباری زبان میں بات کی جارہی ہے جس میں ’’سی پیک ایجنڈا‘‘ سر فہرست ہے۔ جہاں تک امن، تعاون، اور انصاف کی بات کی گئی ہے تو اس جملے کی ادائیگی کے وقت بھی سفیر موصوف کو یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرلینی چاہیے تھی کہ تعاون اور امن ، انصاف کے ساتھ مشروط ہے جب کہ عالم اسلام دیکھ رہا ہے کہ سنکیانگ کے مسلم اکثریتی صوبے میں مسلمانوں کے ساتھ بیجنگ حکومت کا رویہ انتہائی ظالمانہ، غیر منصفانہ اور متعصبانہ ہے، حجاب، نماز، ڈاڑھی اور روزے پر پابندی کی خبریں ہیں۔ جب کہ برما کے مسلمانوں کے خلاف برمی فوج اور بدھ بھکشوؤں نے جلا گھیراؤ، تشدد، آبروریزی اور قتل عام کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے اس پر یو این او سمیت پوری دنیا مذمت کررہی ہے یہاں پر بھی بیجنگ حکومت کا موقف انصاف کے تقاضوں اور انسانیت کے احترام کے مطابق نہیں ہے۔



یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک صورت حال ہے کہ حکومت چین نے برمی فوج اور بدھ بھکشوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کو امن و استحکام کے لیے میانمر (برما) حکومت کے جائز اقدامات قرار دے دیا ہے۔ مزید براں یہ جو کہا گیا ہے کہ بیرون ملک تعاون، سردجنگ کی ڈاکٹرائن اور تصادم کو چین مسترکرتا ہے، محض الفاظ کا تماشا ہے کیوں کہ کسی بھی طرح کا کوئی بھی نظریہ اس وقت تک قابل توجہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ جب تک وہ انسانی بنیادی حقوق کی پاس داری اور مذہبی آزادیوں سمیت اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت اور احترام کو یقینی بنائے رکھنے کا عملی ثبوت پیش نہیں کرتا جب کہ اس طرح کے اصول یا اقدامات سے اتفاق کرنے کے لیے بے لاگ انصاف کا موجود اور نظر آنا ضروری ہے۔ بصورت دیگر ایک بے انصاف معاشرے اور سخت گیر حکومت کا پہلا کام ہی ’’انسان حقوق‘‘ پر ڈاکا کا ڈالنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ چین کا داخلی امن اور معاشی خوشحالی کسی انصاف پر مبنی نظام کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ گولی اور سنگین کے خوف کا نتیجہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہر طرف ’’خیریت‘‘ نظر آتی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے سفیر کے اس بیان کے پیچھے ضرور کوئی خاص سوچ یا فکر کام کررہی ہے غالباً پاکستان کو دوست اور شراکت دار کہہ کر بیجنگ بھارت اور روس کا اتحادی بننے کی طرف جارہا ہے گو کہ اس خیال کو عملی شکل میں لانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے تاہم پھر بھی ’’اتحادی‘‘ کا بورڈ ہٹا لینے کا مطلب وہی ہوگا جیسا کہ امریکا پاکستان کے بارے میں کہہ چکا ہے کہ ’’پاکستان کو غیر ناٹو اتحادی کے درجے سے ہٹا دیا جائے گا۔ حالیہ چند ہفتوں میں پاک چین دوستی سے وابستہ توقعات کے برعکس خارجہ محاذ پر دو اہم تبدیلیاں دیکھنے کو آئی ہیں سب سے پہلے تو یہ بات بہت اہم ہے کہی گزشتہ دنوں چین کی میزبانی میں برکس کا جو اجلاس ہوا اور جس کے اختتام پر ’’برکس اعلامیہ‘‘ جاری کیا گیا اس میں طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد، داعش اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ جس انداز سے کیا گیا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے عظیم دوست چین نے پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ دوستی نبھائی، بیجنگ کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ اس کی میزبانی میں پاکستان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کیوں کیا گیا اور بھارت کی زبان کیسے استعمال ہوئی؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد (ہم یہاں چینی وزارت خارجہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے امریکی صدر کی دھمکیوں پر فوری رد عمل دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کھڑ رہنے کی بات کی) جب ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف بیجنگ دورے پر پہنچے اور وہاں 8ستمبر کو چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی تو چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ہم نے (چین) امریکا کی نئی افغان پالیسی پر غور کیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ امریکا نئی افغان پالیسی خطے کی امن و استحکام کے لیے سود مند ثابت ہوگی۔ حیرت ہے کہ امریکا میں جس ’’نئی افغان پالیسی‘‘ کو پاکستان مسترکر چکا ہے چین اسے خطے کے امن واستحکام کے لیے سود مند قرار دے رہا ہے۔ برکس اعلامیہ اور چینی وزیر خارجہ کا نئی افغان پالیسی پر تبصرہ کس طرح سے پاکستان کے ساتھ چین کا حق دوستی ادا کررہا ہے اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے۔؟
بہر حال بہتر ہوگا کہ چین کے سفیر متعینہ اسلام آباد سن وی ڈونگ کے مذکورہ بیان پر بیجنگ وزارت خارجہ اپنا تفصیلی بیان دے کیونکہ ’’پاک چین دوستی‘‘ کے دشمن اس انتظار میں ہیں کہ کس طرح سے پاک چین دوستی کو مختلف حیلے بہانوں سے کمزور کردیا جائے تاکہ ’’گریٹ گیم‘‘ کے کھلاڑیوں کو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کا موقع مل سکے۔ امید ہے کہ بیجنگ اور اسلام آباد ’’پاک چین دوستی‘‘ کو عالمی سازشوں اور علاقائی آلودگی سے محفوظ رکھنے پر توجہ دیں گے۔