گھر کی صفائی تو جاری ہے

516

zc_Muzaferجب سے خواجہ آصف نے گھر کی صفائی کی بات کی ہے اور چودھری نثار نے اس پر ان کی گرفت کی ہے مسلم لیگ میں دو قسم کے خیالات والے لوگوں کے گروپ واضح ہوگئے ہیں۔ خواجہ آصف جب وزیر دفاع تھے تو خارجہ امور پر بات کرتے تھے اب جب ہ وہ وزیر خارجہ بنے ہیں تو داخلی امور پر بات کرنے لگے ہیں۔ گھر کی صفائی کے بیان سے قطع نظر حکمرانوں اور وزرا کو کم از کم پالیسی تو وضع کرلینی چاہیے کہ کون کس موضوع پر بات کرے گا۔ یہاں تو ہر وزیر، ہر موضوع پر بات کرتا ہے۔ مشاہد اﷲ، نہال ہاشمی، رانا ثنا اﷲ وغیرہ مس گائیڈڈ میزائل تھے کسی بھی وقت کسی جانب فائر چل جاتا تھا، اسی طرح پیپلزپارٹی کے مولابخش چانڈیو ہیں جس کو چاہتے ہیں نشانہ بنالیتے ہیں لیکن امریکا جاکر خواجہ آصف نے جو بیان دیا ہے وہ گھر کی صفائی کے مبہم بیان سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ان کے بیان میں پیپلزپارٹی کے وزیر داخلہ رحمان ملک جھلک رہے تھے جو اجمل قصاب اور ممبئی حملے کا اعتراف ایسے کررہے تھے جیسے آج کل کلبھوشن یادیو کرتا نظر آتا ہے۔
گھر کی صفائی کی بات جنرل پرویز مشرف کے سب سے پہلے پاکستان والے بیان اور پالیسی کا تسلسل ہی توتھا۔ لیکن یہ ایک غیر واضح بیان تھا جس میں کسی معاملے میں پاکستان کے ملوث ہونے یا کسی جرم کے اعتراف کی بات نہیں کی گئی تھی لیکن امریکا جاکر تو خواجہ آصف کے اندر حسین حقانی کی روح حلول کر گئی، کہنے لگے کہ حافظ سعید، جماعت الدعوۃ اور حقانی نیٹ ورک پاکستان کے لیے بوجھ ہیں جان چھڑانے میں وقت لگے گا۔ گویا پیسے دو تو جان چھڑائیں، امریکاڈومور کہتاہے تو ہمارے حکمران بسر و چشم مانتے ہیں بس اب یہ کہنے لگے ہیں کہ Give More۔ آپ حکم فرمائیں ہم حکم بجا لائیں گے۔ رقم بڑھاؤ امریکا ہم تمہارے خادم ہیں۔



خواجہ صاحب نے جماعت الدعوۃ اور حافظ سعید کے بارے میں جو فرمایا ہے وہ پاکستانی عدالتوں کے احکامات اور فیصلوں کی توہین ہے۔ حافظ سعید کو امریکا نے بھارت کے مطالبے اور دباؤ پر دہشت گرد قرار دیا تھا۔ لیکن امریکا جس کو بھی دہشت گرد قرار دے ضروری تو نہیں کہ وہ حقیقتاً دہشت گرد ہی ہو۔ امریکیوں نے تو ان تمام دہشت گردوں سے خفیہ اور اعلانیہ ملاقاتیں کی ہیں جن کو وہ سرکاری طور پر دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ افغانستان میں روسی موجودگی کے دوران تو سات جماعتی افغان مجاہدین گروپ امریکیوں کی آنکھ کا تارا تھا لیکن روس کی شکست اور انخلا کے بعد یہ دہشت گرد اور مسلح گروپ قرار پائے۔ اگر امریکی اپنے کسی مفاد کی خاطر حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں تو پاکستانی حکمرانوں کو یہ سوال کرنے میں کیا خوف ہے کہ ’’کوئی ثبوت دیں‘‘ اگر ثبوت مل جائیں تو ضرور کارروائی کریں۔اسی طرح جس حقانی نیٹ ورک کی بات امریکا کررہاہے اس کے خلاف اور کتنی کارروائی کریں گے۔ ایک مفروضہ بن گیا ہے۔ سوات، وزیرستان، خیبر ایجنسی بلکہ اب کے پی کے میں شہری علاقے بھی محفوظ نہیں اور سندھ میں سی ٹی ڈی خصوصاً راؤ انوار، راجا عمر خطاب اور ثنااﷲ عباسی عام دہشت گرد سے لے کر القاعدہ تک کے لوگ برآمد کررہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ سیکڑوں لوگ ان کے پاس ہیں جب جی چاہتاہے یا ضرورت پڑتی ہے پانچ چھے لوگوں کو نکال کر ان پر کسی نہ کسی تنظیم کا لیبل چسپاں کرکے مبینہ مقابلہ کرتے ہیں مقتولوں کے بم حملوں اور فائرنگ سے ایک ایک پولیس والا محفوظ رہتا ہے اور دہشت گرد مارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ القاعدہ برصغیر، تحریک طالبان افغانستان اور نہ جانے کون کون سی تنظیموں کے امیر برآمد کرلیتے ہیں۔ ہر مقابلے پر فرض شناس اور ہر دلعزیز آئی جی سندھ انعام سے نوازتے ہیں یا خاموش رہ جاتے ہیں۔



بعض پر آرمی چیف کی مبارکباد کی مبینہ خبر بھی چل جاتی ہے۔یہ لوگ بعض اوقات چھ چھ ماہ سے لاپتا ہوتے ہیں ۔وزیر داخلہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ گھر کی صفائی کی بات کمزوری نہیں طاقت کی علامت ہے۔ دنیا میں ہماری پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ ہمارے خیال میں احسن اقبال صاحب اب بس کردیں۔ یہ گھر کی صفائی جنرل پرویز نے شروع کی تھی سب سے پہلے پاکستان کہہ کر اپنے ہی ملک کے لوگوں کو خوب خوب مارا۔ اکبر بگٹی سے لے کر بے نظیر تک سب ان کے دور میں قتل ہوئے۔ سیکڑوں لوگ القاعدہ قرار دے کر امریکا کے حوالے کردیے گئے۔ ڈاکٹر عافیہ بھی ان میں شامل ہے۔ بیشتر لوگ دیندار تھے۔ اسی طرح جنرل پرویز نے مختلف آپریشنز شروع کیے۔ ضرب عضب، رد الفساد، آپریشن خیبر، خیبر ون، خیبر ٹو، اور نہ جانے کتنے آپریشن یہ سب گھر کی صفائی تو ہے۔ اس وقت چودھری نثار کیوں نہ بولے۔ جنرل راحیل اور موجودہ آرمی چیف بھی گھر کی صفائی ہی تو کررہے تھے اور ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ خواجہ آصف سویلین ہیں اور جنرل پرویز، جنرل راحیل اور جنرل باجوہ فوجی۔ گھر کی صفائی یہ سب کرارہے ہیں، بس سویلین احتیاط سے کام نہیں لیتے ورنہ اسلام اور نفاذ شریعت کا نام لینے والا ہر فرد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دہشت گرد ہے۔ اس کی صفائی ہونی چاہیے۔ احسن اقبال نے فرمایا کہ یہ طاقت کی علامت ہے تو ان کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ جنرل پرویز نے کراچی میں چیف جسٹس کی آمد پر 50 افراد کے قتل کو عوامی طاقت کہا تھا۔ غالباً اپنے لوگوں کو مارنا حکمرانوں کے نزدیک طاقت کی علامت ہے۔پتا نہیں احسن اقبال صاحب امت کب یاد آئے گی۔ کیا برما کے مسلمانوں پر مظالم پر خاموشی طاقت کی علامت ہے۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور اب تو بات مقبوضہ کشمیر سے نکل کر کنٹرول لائن بھی عبور کرچکی ان سب مظالم پر خاموشی اور اپنے لوگوں کو مارنا بھی طاقت کی علامت ہے۔ واہ رے احسن اقبال صاحب واہ۔۔۔ کیا طاقت ہے اور کیا بات ہے دنیا میں پوزیشن بہتر ہونے کی۔ اب چین اور روس برما کے خلاف کارروائی کی مخالفت کررہے ہیں پاکستان کی بات نہیں سنی جارہی۔ کشمیر میں مظالم کو کوئی ملک مظالم تسلیم کرنے پر تیار نہیں بلکہ الٹا پاکستان کو در اندازی روکنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ برکس اجلاس میں چین کی موجودگی میں جماعت الدعوۃ اور حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ یہ بین الاقوامی سطح پر پوزیشن بہتر ہونے کا اعلان ہی تو ہے۔ اگر عالمی برادری میں پوزیشن بہتر ہوتی تو امریکا و بھارت کو تو الگ رکھیں چین تو پاکستان سے وہی مطالبات نہ کرتا جو بھارت کرتا ہے۔ بہر حال بیان بازی اپنی جگہ گھر کی صفائی اپنی جگہ ان لوگوں کو گھر کی صفائی مبارک ہو۔ اس کے نتائج تو آنے والی نسلوں کو بھگتنے ہیں انھیں کیا۔۔۔!