مریم نواز اور ان کا میڈیا سیل حکومتی جھولے میں جھول تو رہا تھا مگر اس کی سرکاری حیثیت نہیں تھی۔ اب امریکا میں اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ڈان لیکس کی بنیاد بننے والی سوچ کو خواجہ آصف نے آگے بڑھایا۔ خواجہ آصف کی طرف سے حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید کو بوجھ قرار دینے کی بات اس وقت سامنے آئی جب امریکا کے وزیر دفاع جم میٹس بھارت کے دورے پر تھے اور خبروں کے مطابق انہوں نے بھارتی حکومت کو افغانستان میں اپنا کردار کم کرنے اور تحریک طالبان اور جماعت الاحرار جیسی تنظیموں سے اپنے روابط محدود کرنے کو کہا تھا مگر ساتھ ہی یہ رپورٹس بھی آئیں کہ بھارت کی طرف سے امریکا کو اس معاملے میں ٹکا سا جواب دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ اس معاملے میں مزید دباؤ نہ ڈالے کیونکہ تحریک طالبان اور جماعت الاحرار جیسی تنظیمیں افغانستان میں پاکستان کے خلاف اس کا اثاثہ ہیں اور ان کی حمایت کی بدولت ہی بھارت کو طالبان کے ایک اہم حصے تک رسائی بھی ہے اور وہ افغانستان میں پاکستان کا مقابلہ بھی کر رہا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں باقاعدہ فوج بھیجنے سے بھی صاف انکار کیا ہے۔ پاکستان نے امریکا پر یہ بات واضح کردی ہے کہ افغانستان میں بھارت کا کردار محدود ہوئے بغیر پاکستان یک طرفہ طور پر اپنے ’’اثاثوں‘‘ سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا نے مجبور ہو کر بھارت کو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں کمی لانے کے منصوبے پر کام شرو ع کیا ہے۔ خود افغانستان میں یہ سوچ جڑ پکڑ رہی ہے کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں توازن نہ رکھ کر غلطی کی ہے۔ اس بات کا اظہار چند دن قبل افغانستان میں پاکستان کے سفیر نے بھی کیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی اقوام متحدہ کے روسڑم پر پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔
خطے میں پھیلی ہوئی کشیدگی کو دور کرنے کے لیے چار فریقوں کا کردار بہت اہم ہے۔ ان میں دو فریق امریکا اور چین ہیں جب کہ دوسرے دو فریق پاکستان اور بھارت ہیں۔ یہ تمام فریق خطے کو پرامن بنانے کے ایک نکتے پر متفق ہوں گے تو پراکسی جنگوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت عیاں ہو رہی ہے کہ ہر فریق کے اپنے اپنے اثاثے ہیں جو دوسرے فریق کے بوجھ ہیں۔ اثاثوں اور بوجھ کی کسی ایک تشریح پر متفق ہونے کے بعد خطے میں امن کی حقیقی صبح طلوع ہو سکتی ہے۔