اتحاد امت وعلماء کراماتحاد امت وعلماء کرام۔ ۔ از حشمت اللہ صدیقی

1062

مسلمانوں کے زوال کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو مسلمانوں کی عظیم طاقتوں وسلطنتوں کے زوال کا باعث جہاں دیگر وجوہ ہیں وہاں ایک بنیادی وبڑی وجہ ان میں باہمی نااتفاقی وفرقہ واریت رہی ہے جس میں مبتلا ہوکر وہ تاریخ کا حصہ بن گئیں، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور امت زوال کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ آج 57اسلامی ممالک دنیا میں موجود ہیں لیکن باہمی تنازعات، فرقہ واریت وعلاقائی اختلافات کے باعث راکھ کا ڈھیر ہیں، ان میں نہ شعلہ ہے، نہ چنگاری بلکہ خطرناک حد تک بے حسی وجمود طاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ تازہ ترین صورت حال برما میں روہنگیا مسلمانوں کی ہے جن کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ عورتوں، بچوں وبوڑھوں کو زندہ جلایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کے مظالم کشمیر، افغانستان، شام، فلسطین ودیگر خطوں میں مسلمانوں پر کیے جارہے ہیں لیکن اسلامی ممالک محض اتحاد واتفاق کی قوت نہ رکھنے کی باعث ان مظلوم مسلمانوں کی کھُل کر حمایت نہیں کر پا رہے ہیں جب کہ او آئی سی ودیگر بھی محض بیانات دے رہے ہیں اس کمزوری کو قرآن نے پہلے آگاہ کردیا تھا کہ: (ترجمہ) ’’اللہ کی رسّی (دین اسلام)کو مضبوطی پکڑے رہو اور تفرقہ نہ ڈالو‘‘۔ پچھلی قومیں بھی اللہ کے دین میں تفرقہ وفرقہ واریت کے باعث ہلاک ہوئیں چناں چہ آئندہ کے لیے امت مسلمہ کو خبردار کیا گیا کہ: (ترجمہ) ’’خبردار، تفرقہ (جھگڑا) نہ پیدا کرو، ورنہ تمہاری قوت جاتی رہے گی‘‘۔ (القرآن) لیکن قرآن کی اس تنبیہ کو نظر انداز کرنے کے باعث آج ہم دنیا بھر میں نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ عالمی طاقتیں ہمیں آئے دن دھمکیاں دے رہی ہیں، ہم پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں، جب کہ اہم اسلامی ممالک دہشت گردی کا خود شکار ہیں۔ پاکستان بھی دہشت گردی کا عذاب بھگت رہا ہے۔ ایک اللہ، ایک رسولؐ، ایک قبلہ اور ایک قرآن رکھنے والی یہ امت مسلمہ جسد واحد کے بجائے فرقوں، دھڑے بندیوں، ذات، قومیتوں کی تفریق میں مبتلا ہے۔ نااتفاقی نے ہر دور میں مسلمانوں کی اجتماعیت واتحاد امت کے عظیم جذبہ کو ختم کیا ہے، ہماری تاریخ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اہم وبنیادی عنصر یہی نااتفاقی وباہمی اختلافات تھے اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ میں تاخیر و رکاوٹ کا سبب بھی علماء ودینی جماعتوں میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، وباہمی اختلافات ہیں لہٰذا فرقہ واریت کے خاتمہ واتحاد امت کے لیے علماء کرام ودینی جماعتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
قیام پاکستان کے موقع پر تحریک پاکستان میں علماء نے بھرپور کردار ادا کیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد اسلامی دستور وآئین کے لیے باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’قرارداد مقاصد‘‘ اور ’’22متفقہ نکات‘‘ جیسی دستاویز مرتب کرکے علماء میں باہمی اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا تھا۔ یہ علماء ودینی جماعتوں کے اتحاد کی برکت تھی جس نے ہمارے ہر آئین میں اسلامی دفعات کو شامل کرایا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ودیگر اہم اقدامات عمل میں آئے جن میں آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام اہم پیش رفت تھی جس کا مقصد نفاذ اسلام کے لیے رائج الوقت تمام قوانین کو قرآن وسنت کی روشنی میں تبدیلی وترمیم کرنا تھا یہ ادارہ بھی تمام مسالک ومکاتب فکر کے علماء ودینی اسکالرز کے باہمی فکری ونظریاتی اتحاد کا مظہر ہے لیکن یہ تمام پیش رفت جس کا مقصد ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ تھا اس میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سازشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور حکمرانوں، سیاست دانوں ودیگر اسلام بیزار قوتوں نے سیاسی مصلحتوں ومفادات کے لیے علماء ودینی جماعتوں میں مسلکی اختلافات وفرقہ واریت کو ہوا دی اور ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دی اور بعض نے غیر ذمے دار علماء کے روپ میں اختلافات کو نفرت میں تبدیل کرنے کے لیے محراب ومنبر کو بھی فرقہ وارانہ منافرت کا ذریعہ بنایا۔ جس کا نتیجہ انتہا پسندی وتشدد نکلا اور ملک دشمن وبیرونی سازشوں نے اپنا مکروہ کردار ادا کرتے ہوئے گمراہ عناصر کے ہاتھوں مساجد ومدارس کو نشانہ بنایا کئی اکابر وجید علماء کرام جو اتحاد امت کی علامت تھے اور فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے مخلصانہ کردار ادا کررہے تھے وہ ان قوتوں کا نشانہ بنے اور ملک اندرونی وبیرونی دہشت گردی کا شکار ہوا ان حالات میں ملکی استحکام وسلامتی ونفاذ اسلام کے لیے نیا بیانیہ ترتیب دینا چاہیے اور علماء کرام ودینی جماعتوں کو آج اسی جذبہ اتحاد کو بیدار کرنا ہوگا جس جذبے کے تحت ہم نے یہ ملک بنایا تھا اور قرارداد مقاصد، 22متفقہ نکات، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی کے لیے امت کو متحد کیا تھا اس کے لیے یہ بات خوش آئند ہے کہ جماعت اسلامی نے علماء کنونشن کے ذریعے اس کا آغاز کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک جذبے ومشن کے تحت ملک میں کرپشن کے خاتمے واسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اتحاد امت کو اہم قدم قرار دیتے ہیں تمام مکاتب فکر کے علماء ودینی جماعتوں کو اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور اتحاد امت کے لیے ہر آواز پر لبیک کہنا چاہیے۔ تاکہ ملک میں جلدازجلد ایک مثبت اسلامی وفلاحی تبدیلی ممکن ہوسکے۔

از حشمت اللہ صدیقی