اپنے پیروں پر کلہاڑی !۔

332

حکومت نے بیٹھے بٹھائے ایک نیا شوشا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ معمولی بات نہیں بلکہ حکمرانوں نے اپنے خلاف نئی چارج شیٹ درج کرادی ہے۔ حکمران جماعت نے عدالت عظمیٰ کی طرف سے نا اہل قرار دیے گئے شخص کو حکمران پارٹی کا سربراہ بنانے کے شوق میں آئینی ترمیم کرتے ہوئے قانون ختم نبوت پر بھی ہاتھ ڈال دیا جس سے قادیانیوں کو بھی مسلم رائے دہندگان کی فہرست میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ بات یہیں پر نہیں رہے گی بلکہ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی شق بھی ختم کردی جائے۔ خدانخواستہ اگر اس ملک پر سیکولر طبقہ قابض ہوگیا تو وہ مذکورہ آئینی ترمیم کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں سے جو حلف لیا جاتا ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کو نبی آخر الزماں تسلیم کرتے ہیں اس میں حلف کی جگہ اعلان کے الفاظ شامل کرنے کی اصل وجہ کیا ہے ؟ بعض مبصرین کے مطابق وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکا سے یہ ہدایت لے کر آئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات صحیح نہ ہو لیکن تمام نہیں تو بیشتر مسلم ممالک کے حکمران امریکا کے اشاروں پر ناچتے ہیں ۔ سعودی عرب بھی ’’ ترقی‘‘ کی راہ پر چل پڑا ہے اور اب سعودی خواتین بھی ڈرائیونگ کرسکتی ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اس سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو حکومت برقرار نہیں رہ سکے گی۔ تمام دینی جماعتوں اور علما کرام نے حلف نامے میں ردوبدل کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا اعلان کردیا ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے انتباہ کیا ہے کہ حکومت قادیانیت نوازی سے باز رہے اور الیکشن ریفارمز بل کی آڑ میں حلف نامے کی عبارت میں تبدیلی اور ترمیم ناقابل قبول ہے۔ لیکن حلف نامے کے اخراج کی ذمے دار پوری قومی اسمبلی ہے جس کے ارکان نے بل کا مسودہ پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابی اصلاحات بل میں امیدوار کے لیے ختم نبوت کا اعلان (ڈیکلریشن) شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں سیاسی و مذہبی رہنماؤں سمیت تمام قائدین کو مناظرے کا چیلنج دیتا ہوں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ حلف کے الفاظ کو اعلان یا اقرار سے بدلنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی۔ اس کے ساتھ حکومت نے دباؤ پڑنے پر حلف نامہ بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کہتے ہیں کہ رواں سیشن میں ترمیم لانے پر تیار ہیں ۔ نواز شریف کہتے ہیں مجھے تو پتا ہی نہیں تھا، حلف نامے میں تبدیلی واپس لی جائے۔ ساجد میر کے بقول کوئی فرق نہیں پڑا تو ترمیم کی واپسی اور بحالی کس لیے ؟Edarti LOH