لہو پکارے گا آستیں کا

404

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں اہم شخصیات کے قتل کا کبھی سراغ نہیں ملا۔ ابتدا قائد ملت لیاقت علی خان سے ہوئی انہیں راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کے موقعے پر قتل کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ابھی انہوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے چند الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ جلسہ عام میں موجود ایک شخص نے گولی چلا دی جو سیدھی ان کے سینے میں جاکر لگی خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ جلسہ میں تعینات پولیس افسر نے قاتل کا اسی وقت کام تمام کرنے کا حکم دیدیا۔ قاتل اور مقتول دونوں دنیا سے رخصت ہوگئے لیجیے قصہ ختم ہوگیا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم اور قائد اعظم کے دست راست کا قتل اتنا سستا ثابت ہوا کہ اس کی تحقیقات کبھی مکمل نہ ہوسکیں اور آج تک اس قتل کے راز پر پردہ پڑا ہوا ہے البتہ پچھے دنوں بعض انکشافات سے پتا چلا ہے کہ اس قتل میں امریکا کا ہاتھ تھا وہ لیاقت علی خان کو اپنا تابع مہمل بنانے میں ناکامی کے بعد سامنے سے ہٹانا چاہتا تھا اس مقصد کے لیے اس نے مقامی ضمیر فروشوں کو آلہ کار بنایا اور انہوں نے کرایے کے ایک قاتل کے ذریعے امریکا کا مقصد پورا کردیا۔ جو لوگ امریکا کے ایجنٹ بنے ان کے چہروں پر آج بھی نقاب پڑے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق ایک فوجی سربراہ تھے وہ اپنے سینئر ساتھیوں کے ہمراہ طیارے کے حادثے میں مارے گئے۔ اس حادثے کا ماسٹر مائنڈ بھی امریکا کو قرار دیا گیا لیکن حکومتی سطح پر اس حادثے کی کوئی تحقیقات سامنے نہیں آئیں حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کے صاحب زادوں خاص طور پر اعجاز الحق نے بھی تحقیقات میں دلچسپی ظاہر نہیں کی اور قانون کی کتاب میں یہ حادثہ آج بھی صیغہ راز میں ہے۔

zc_MF
ذوالفقار علی بھٹو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں تختہ دار پر لٹکا دیے گئے لیکن ان کی بیٹی اور دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہنے والی نامور خاتون سیاست دان بے نظیر بھٹو اور ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو جس طرح سرعام قتل کیا گیا وہ پاکستان کی تاریخ کے شرمناک واقعات میں شامل ہیں لیکن ان دونوں واقعات میں نہ قاتل پکڑے گئے نہ ان کی نشان دہی کی جاسکی پچھلے دنوں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے دس سال بعد بے نظیر قتل کیس کا فیصلہ سنایا ہے جس میں قاتل کو نامزد کیے بغیر دو پولیس افسروں کو قتل کے شواہد مٹانے پر سترہ سال قید اور جرمانے کی سزا دی گئی ہے جب کہ پانچ ملزموں کو جنہیں خفیہ ایجنسیوں نے اس قتل میں بطور سہولت کار پکڑا تھا رہا کردیا گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف جن کے دور حکومت میں یہ بہیمانہ قتل ہوا انہیں بھی بری الزمہ قرار دیدیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف آصف زرداری اپیل میں چلے گئے ہیں اور انہوں نے پرویز مشرف سمیت سب ملزموں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ردعمل میں پرویز مشرف نے زرداری پر الزام لگایا ہے کہ وہ بے نظیر ہی کے نہیں مرتضیٰ بھٹو کے بھی قاتل ہیں اور پھانسی کی سزا انہیں ملنی چاہیے، دلیل ان کی یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے انہیں سیاسی طور پر نقصان اٹھانا پڑا تھا جب کہ فائدہ آصف زرداری کو ہوا تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ جب بے نظیر بھٹو جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد بخیریت اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی تھیں تو انہیں موبائل پر کون بار بار سن روف کھولنے اور نعروں کا جواب دینے کا مشورہ دے رہا تھا۔ پھر جلسہ گاہ میں ان کے پیچھے کھڑا خالد شہنشاہ نامی شخص جو پُر اسرار حرکتیں کررہا تھا وہ بعد میں کیسے مارا گیا۔ پرویز مشرف کو بلاشبہ بے نظیر کے قتل سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن جو سوالات انہوں نے اٹھائے ہیں ان کے جوابات بھی ضروری ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر بے نظیر بھٹو زندہ رہتیں اور تیسری مرتبہ وزیراعظم بنتیں تو شاید زرداری وزیراعظم ہاؤس میں داخل نہ ہوپاتے کہ ان کے درمیان اختلافات کی خبریں عام تھیں اور بے نظیر بھٹو نے انہیں پاکستان آنے سے روک دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آئیں تو زرداری منظر سے غائب تھے۔ بے نظیر کے قتل ہی سے ان کے پاکستان آنے اور اقتدار حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس لیے پرویز مشرف لاکھ جھوٹے سہی لیکن ان کے اس موقف میں کوئی مبالغہ نہیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا اصل فائدہ زرداری ہی کو پہنچا۔ بے نظیر کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی اور زرداری پورے پانچ سال تک ایوان صدر میں براجمان رہے وہ چاہتے تو بے نظیر قتل کیس کی تفتیش صحیح خطوط پر کراسکتے تھے لیکن انہوں نے کیس میں دلچسپی ہی نہیں لی۔ انہوں نے کیس کی تفتیش اقوام متحدہ کے نمائندوں سے کرائی لیکن بعد میں تحقیقاتی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اب دس سال بعد عدالتی فیصلے پر انہیں بے نظیر یاد آئی ہیں لیکن اب ان کی کون سنتا ہے۔ رہا مرتضیٰ بھٹو کا قتل تو یہ بھی بھیدوں بھرا بستہ ہے جسے آج تک کھولا نہیں جاسکا۔ مرتضیٰ بھٹو کا قتل بے نظیر کے دور حکومت میں ہوا۔ مرتضیٰ کی صاحب زادی فاطمہ بھٹو کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے والد پر حملے کی اطلاع ملتے ہی۔ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں اپنی پھوپھی سے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن ان سے ٹیلی فون نہیں ملایا گیا یا محترمہ نے ٹیلی فون وصول نہیں کیا۔ مایوسی کے عالم میں انہوں نے اپنے پھوپھا جناب زرداری سے بھی رابطے کی کوشش کی لیکن ادھر بھی سناٹا رہا اس دوران زخمی مرتضیٰ بھٹو فوری طبی امداد کے لیے ترستے رہے لیکن امداد فراہم نہ کی گئی انہیں اس وقت ہسپتال کے جایا گیا جب جسم سے سارا خون بہہ چکا تھا اور وہ آخری ہچکی لے رہے تھے۔ یوں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ مرتضیٰ بھٹو کسی صورت زندہ نہیں رہنے پائیں۔
پرویز مشرف کے الزام سے قطع نظر فاطمہ بھٹو اور ان کی والدہ غنویٰ بھٹو بھی مرتضیٰ کے قتل کی ذمے داری زرداری پر ڈالتی ہیں اس کا ایک خاندانی پس منظر بھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کے سپرد کرنا چاہتی تھیں لیکن وہ ایسا نہ کرسکیں اور بے نظیر بھٹو نے اپنی والدہ کو سبک دوش کرکے پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ اس عمل میں زرداری کا بھی پورا پورا ہاتھ تھا کہا جاتا ہے کہ پارٹی کی قیادت پر بہن بھائی کے درمیان مفاہمت ہوسکتی تھی لیکن زرداری آڑے آگئے اور انہوں نے مفاہمت نہ ہونے دی اس طرح مرتضیٰ اور زرداری کے درمیان دشمنی بڑھتی چلی گئی۔ مرتضیٰ اپنے بہنوئی کو ناپسند کرتے تھے اخبارات میں یہ ’’سینہ گزٹ‘‘بھی چھپ چکا ہے کہ ایک دفع مرتضیٰ نے زرداری کو بہانے سے بلاکر ان کی مونچھیں مونڈ دی تھی اور وہ کتنے دنوں تک بغیر مونچھ کے پھرتے رہے تھے۔ مرتضیٰ بھٹو نے پیپلزپارٹی شہید بھٹو گروپ کے نام سے اپنی الگ پارٹی قائم کرلی تھی اور وہ سندھ میں تیزی سے مقبولیت حاصل کررہے تھے کہ قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ ان کی بہن بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں لیکن بے بسی کی تصویر بنی رہیں۔
بہر کیف بینظیر کا قتل ہو یا مرتضیٰ کا۔
جو چُپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستین کا!
داد دیجیے زرداری صاحب کو کہ پیپلزپارٹی سے بھٹو خاندان کا صفایا کردیا لیکن بھٹو کا سکہ بڑی ڈھٹائی سے اچھال رہے ہیں۔