خلافت آرہی ہے، داعش اسلام آباد پہنچ گئی ۔ ۔ ازملک الطاف حسین

405

25ستمبر کے اخبارات میں اسلام آباد کے ایکسپریس وے پر ’’ داعش‘‘ کا جھنڈا لہرا دینے کی خبریں بڑے دلچسپ اور سنسنی خیز انداز میں شائع کی گئیں۔ کراچی کے ایک بڑے اردو روزنامے نے صفحہ اول پر جس سرخی کے ساتھ خبر شائع کی وہ قابل توجہ ہے’’ خلافت آرہی ہے، داعش اسلام آباد پہنچ گئی ، ایکسپریس وے پر جھنڈا لہرا دیا جبکہ خبر کے اندر امزید خبر یہ ہے کہ وزیر داخلہ احسن اقبال نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرلی۔ پولیس اور حساس اداروں نے تحقیقات شروع کردیں، جھنڈا اتار لیا گیا اور اطلاع دینے والے شخص کو پولیس ساتھ لے گئی، جھنڈے پر کلمہ طیبہ لکھا گیا ہے اور خلافت آرہی ہے کے نعرے درج تھے وغیرہ وغیرہ‘‘۔
بلا شبہ ’’ داعش‘‘ کا عام تعارف یہ ہے کہ وہ ایک عالمی دہشت گرد تنظیم ہے جبکہ ایسا ہی تعارف القاعدہ اورطالبان کا بھی ہے، داعش اور القاعدہ کا تعلق عرب خطے سے ہے، طالبان کا تعلق افغانستان اور پاکستان سے ہے۔ عرب دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے، عراق، شام، لیبیا اور یمن میں بھرپور جنگ جاری ہے، امریکا اور روس کے ٹینک اور جہاز مسلمانوں کو جی بھر کر نشانہ بنا رہے ہیں ، عرب سرزمین پر یہ جنگ کیوں اور کیسے شروع ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ جب امریکی سازش کے تحت 2اگست 1990ء کو عراقی فوج نے کویت پر چڑھائی کرڈالی تو سعودی فرمانروا شاہ فہد کی اجازت کے ساتھ امریکی صدر بش سینئر کو سعودی عرب، کویت اور عراق کے گردو نواح میں فوج اتارنے کا موقع مل گیا اور یوں خلیج کی پہلی جنگ 17جنوری 1991ء کو شروع ہو کر 28فروری 1991ء کو ختم ہوگئی تاہم امریکی فوجی بھوکے بھیڑیوں کی طرح عراق کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ خلیج میں جب امریکی فوجیں اتاری جارہی تھیں تو سب سے پہلے اسامہ بن لادن نے اس کی مخالفت کی تھی، اسامہ کا کہنا تھا کہ عراق کویت تنازع علاقائی مسئلہ ہے جسے خود ہی حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، غیر ملکی فوجوں کی میزبانی سے عرب خطے کا امن تباہ ہوجائے گا تاہم عرب حکمرانوں نے اسامہ کے مشورے اور انتباہ پر کوئی توجہ نہیں دی جبکہ امریکا جو موقعے کی تلاش میں تھا کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کا جھوٹا الزام دے کر دوبارہ عراق پر حملہ آور ہوگیا۔ صدر بش سینئر کے صاحبزادے بش جونیئر نے پہلے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا اور اس کے بعد 2003ء میں عراق پر بھی حملہ کردیا گیا، خلیج کی اس دوسری جنگ میں نہ صرف عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی بلکہ عراق کے صدر صدام حسین کو بھی پھانسی دے دی گئی، صدام حسین کی پھانسی کے بعد عراق میں امریکی فوجوں کے خلاف مزاحمت اور ردعمل مزید شدید ہوگیا جبکہ اس دوران ’’ داعش‘‘ کا وجود عمل میں آیا جس کے اندر صدام حسین کے بعض فوجی اور جہادی ایک ساتھ شامل ہوگئے ۔ ’’ داعش‘‘ کے جس کا آ ج کل سربراہ ابو بکر بغدادی بتایا جاتا ہے اس کے جنگجو سب سے زیادہ شام اور عراق میں اپنے مخالفین کے ساتھ برسر پیکار ہیں، امریکا اور مغربی یورپی ممالک میں ہونے والے دھماکوں وغیرہ میں بھی اکثر داعش ہی ملوث بتائی جاتی ہے جبکہ القاعدہ بھی عرب ممالک میں جاری خانہ جنگی اور غیر ملکی فوجی جارحیت کے خلاف اپنا مزاحمتی کردار جاری رکھے ہوئے ہے۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں فرق رکھا گیا ہے، امریکا افغان طالبان کو دہشت گرد کہنے کے باوجود ان سے مذاکرات اور انہیں کابل کے اقتدار میں شریک کرنا ضروری سمجھتا ہے جبکہ پاکستانی طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کی اجازت نہیں دیتا۔ خطہ کے امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے اندر موجود تمام طالبان گروپوں کے ساتھ مذکرات کا آپشن استعمال کیا جائے اگر مذکرات امن کی ضمانت بن سکتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی عمل یا سودا نہیں۔
بہرحال عرب دنیا سمیت افغانستان اور پاکستان کے حالات کو اگر سامنے رکھا جائے تو نقطہ نظر کے اختلاف کے باوجود اس بات پر ضرور اتفاق کیا جائے گا کہ آج افغانستان اور عرب ممالک میں جو جنگ جاری ہے اور جس کے اندر طالبان، القاعدہ اور داعش کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان سے پہلے اس جارح اور فوجی جارحیت کا بھی ذکر ہونا چاہیے کہ جن کی وجہ سے گزشتہ 16برسوں سے افغانستان اور 13برسوں سے عراق و دیگر عرب ممالک لہولہان ہو رہے ہیں ۔ ہم یہاں طالبان، القاعدہ اور داعش کی جتنی بھی مذمت کریں اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ ان مسلح اور جنگجو تنظیموں کے خاتمے کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ افغانستان سمیت تمام عرب ممالک میں سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا پر غور ہونا چاہیے۔ جہاں تک اسلام آباد میں داعش کے پہنچ جانے کی خبر ہے تو اس پر ہمارے میڈیا کو سنسنی پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیے، دشمن کے پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں، احتیاط، تدبر اور بصیرت سے کام لیا جائے کیوں کہ دشمن ’’ داعش‘‘ کی آڑ میں ہم پر حملے کی منصوبہ بندی کررہا ہے علاوہ ازیں کیا یہ بات ممکن نہیں کہ امریکا حقیقی داعش کی جگہ پاکستان میں خود ساختہ داعش اتار دے، کیا افغانستان میں را، موساد، این ڈی ایس اور سی آئی اے کے نیٹ ورک کے لیے پاکستان میں داعش کا کوئی ایک جھنڈا یا سو جھنڈے لہرانا مشکل کام ہے؟ کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی جاسوس ایجنسیوں کی موجودگی اور مداخلت کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے ؟
صدر ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے وقت اور جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا یا یہ کہ اس دوران بیجنگ کانفرنس کے برکس اعلامیے میں پاکستان پر جو دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی اگر ان تمام کا ایک میز پر رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ امریکا اور بھارت کا گٹھ جوڑ کس طرح سے پاکستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کو بڑھاتاچلا جارہا ہے حالاں کہ ان میں سے بعض کا پاکستان میں قطعاً کوئی وجود ہی نہیں جبکہ چند ایک تنظیمیں وہ تھیں کہ جو مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام اور حریت پسندوں کی حمایت کرتی ہیں جبکہ امریکی اور بھارتی شیطانی دماغ اس شرارت میں مصروف ہیں کہ کس طرح سے مذکورہ تنظیموں کا حوالہ دے کر پاکستان کے خلاف پابندیوں سمیت دیگر سخت اقدامات کرائے جائیں حالاں کہ طالبان، القاعدہ اور داعش امریکی مداخلت، جارحیت اور فوجی درندگی ہی کا نتیجہ ہیں کہ جن کی وجہ سے خود عرب دنیا اور پاکستان کو بے شمار نقصان اٹھانا پڑا، امریکا طالبان کے ذریعے پاکستان کو اور داعش و القاعدہ وغیرہ کے ذریعے عرب دنیا کو انتشار اور خانہ جنگی میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے تاکہ اسے ( امریکا) مسلم ممالک میں اپنی فوجیں رکھنے کاموقع میسر رہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بالکل درست کہا ہے کہ ’’ ہم افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں آنے دیں گے ‘‘ جبکہ آثار بتا رہے ہیں کہ امریکا افغانستان کی کیا اب تو عراق اور شام کی جنگ بھی پاکستان میں لڑنا چاہتا ہے۔ طالبان کے تعاقب میں امریکا پہلے ہی پاکستان پر ڈرون حملے کررہا ہے اور اب وہ ( امریکا) داعش کی آڑ میں پاکستان پر مزید حملے تیز کرنا چاہتا ہے حالاں کہ طالبان کا محاذ افغانستان کے اندر اور داعش کا محاذ عراق و شام میں ہے جن کا پاکستان سے کبھی کوئی تعلق نہیں ۔ لہٰذا پاکستان دشمن قوتوں کے سازشی ایجنڈے کو اگر مد نظر رکھا جائے اور کڑیوں سے کڑیاں ملائی جائیں تو ’’ داعش‘‘ کا اسلام آباد پہنچنے کا کوئی امکان یا ثبوت نہیں یہ سب ایک سازش اور کھیل ہے جو غیر ملکی ایجنسیاں ہماری ناک کے سامنے کھیل رہی ہیں ۔ شکیل آفریدی، ریمنڈ ڈیوس، کل بھوشن یادیو، الطاف حسین، محمود خان اچکزئی، حسین حقانی اور بلوچ علیحدگی پسندوں جیسے وطن فروش اور غیر ملکی ایجنٹ پاکستان کے اندراور باہر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ امید ہے کہ ہمارا میڈیا اور حساس ادارے سامراجی قوتوں کی گریٹ گیم کو سمجھنے اور اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے اپنی بھرپور صلاحیتوں اور وسائل سے کام لیتے ہوئے محفوظ، مضبوط اور خوشحال پاکستان کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
اللہ رب العزت ہماری مدد و رہنمائی فرمائے ۔۔۔ آمین ثم آمین