جدید طبی تحقیق

961

ادرک کی چائے،صحت کے لیے انتہائی مفید

حال ہی میں کی گئی طبی تحقیق کے مطابق ادرک کی چائے انسانی صحت کے لئے انتہائی مفید ہے۔جو مختلف امراض کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ادرک سے بنی چائے وٹامن سی سے بھرپور ہوتی ہے جو صحت کے لئے انتہائی مفید ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادرک کی چائے تلی میں مفید، جلن کو دور کرنے اور قوت مدافعت کو بڑھاتی ہے۔ ماہرین نے کہا کہ ادرک کی چائے انسانی دماغ کو سخت ٹینشن میں بھی سکون دیتی ہے۔

انگوٹھا چوسنے والے بچوں میں
الرجی کا خطرہ کم ہوتا ہے

انگوٹھا چوسنے والے بچوں میں الرجی کا خطرہ کم ہوتا ہے،دانتوں سے ناخن کاٹنے کی عادت سے بھی الرجی کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق نیوزی لینڈ میں کی گئی تحقیق سے سامنے آیا کہ جو بچے اپنا انگوٹھا چوستے ہیں یا پھر دانت سے ناخن کاٹتے ہیں انھیں الرجی ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ انگوٹھا چوسنے یا ناخن کاٹنے کے عمل میں بچے جراثیم سے زیادہ رابطے میں رہتے ہیں اور ان کی مدافعتی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔یہ تحقیق بچوں کی بیماریوں سے متعلق امریکی جرنل ’پیڈریئٹکس‘ میں شائع ہوئی ہے اور اس میں اوٹاگو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے حصہ لیا۔تحقیق کرنے والوں نے ایک ہزار سے زیادہ بچوں کی ایک عرصے تک نگرانی کی جب تک کہ وہ سن بلوغ تک نہیں پہنچ گئے۔ اس دریافت کے بعد بھی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچوں کی ہاتھ دھونے کے لیے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔

ماں کا دودھ اورتوجہ، بچوں کی
ذہانت اورکامیابی کی ضمانت

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے لیے والدین کی توجہ اور کم ازکم 6 ماہ تک ماں کا دودھ انہیں مستقبل میں ذہین اور کامیاب بناسکتے ہیں۔ ’’ماں کی گود، بچے کی اوّلین تربیت گاہ ہے،‘‘ پاکستان اور جنوبی افریقا کے ماہرین کی حالیہ تحقیق سے اس پرانے مقولے کی سچائی ایک بار پھر ثابت ہوئی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر عائشہ یوسف زئی کی قیادت میں پاکستانی دیہاتوں میں مقیم 1,302 غریب بچوں پر ایک مطالعہ کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ اگر مائیں اپنے 2 سالہ بچوں کے 4 سال کی عمر میں پہنچنے تک ان پر توجہ رکھیں تو بڑی عمر میں یہ بچے زیادہ قابل اور کامیاب ثابت ہوسکتے ہیں۔ مطالعے میں شریک بچوں کی ماؤں کو تربیت دی گئی کہ کھیل کود اور بات چیت کے دوران بچوں کا مشاہدہ کیسے کیا جائے، اور ان کی مختلف حرکات و سکنات پر کس طرح ردِعمل کا اظہار کیا جائے۔
والدین اور بچوں میں بہتر رابطے سے یہ فائدہ ہوا کہ 4 سال کی عمر تک پہنچنے پر بچوں میں اکتساب (سیکھنے کی صلاحیت)، ذہانت، سماجی کردار، توجہ، یادداشت، خود پر قابو اور مزاج میں لچک جیسی خصوصیات بھی واضح طور پر بہتر ہوئیں۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں کا خیال رکھنے اور ان کی تربیت کے معاملے میں والدین ہی زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔ اس مطالعے کے نتائج ’’دی لینسٹ گلوبل ہیلتھ‘‘ میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔ ایک اور مطالعے میں، جو یونیورسٹی آف گلاسگو کی جانب سے جنوبی افریقا کے بچوں پر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو صرف 6 ماہ تک دودھ پلائیں تو وہ زیادہ فرمانبردار، سمجھدار اور ذہین ہوتے ہیں۔ اس مطالعہ کے نتائج آن لائن تحقیقی جریدے ’’پبلک لائبریری آف سائنس، میڈیسن‘‘ چند روز پہلے شائع ہوئے ہیں۔ اخلاقی اور مذہبی نقطہ نگاہ سے شاید ان مطالعات میں کوئی نئی بات نہ ہو؛ مگر ان سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ مذہب کی اخلاقی تعلیمات، دنیاوی اعتبار سے بھی ہمارے لئے بے حد مفید ہیں۔