نااہل میاں صاحب کی واپسی

410

Edarti LOHعدالت عظمیٰ سے نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف بڑی ترکیبوں سے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کروا کرایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے صدر بن گئے۔ اس کے لیے پارٹی کے قواعد میں بھی تبدیلی کرائی گئی اور گزشتہ منگل کو جنرل باڈی اجلاس میں خود کو پارٹی صدر منتخب کروالیا۔ اسے ن لیگ کے رہنما نواز شریف کی سیاست میں واپسی قرار دے رہے ہیں اور سمجھ ہی نہیں رہے بلکہ سمجھا رہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بھی نواز شریف نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ حاکمیت عوام کی امانت ہے ، اس میں خیانت بند کی جائے، تنبیہ کررہا ہوں چال نہیں بدلی تو پاکستان معاف نہیں کرے گا ‘‘۔ ان کے نامزد کردہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بولے کہ ’’ عدالتی فیصلوں سے لیڈر ختم نہیں ہوتے، ہم نے فیصلے پر عمل کیا لیکن تاریخ اور عوام اسے قبول نہیں کریں گے‘‘۔ دونوں ہی نے بین السطور عدالت عظمیٰ اور اس کے فیصلوں کو للکارا ہے۔ نواز شریف اور ان کے ہالی موالی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد تو بہت کھل کر عدالتوں پر گرجتے برستے رہے ہیں اور ’’ عدلیہ و طاقت‘‘ کا گٹھ جوڑ اسے اپنے لیے سازش قرار دیتے رہے ہیں لیکن اس بار الفاظ کا چناؤ بڑی احتیاط سے کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کی امانت میں خیانت کون کررہاہے۔ اس کا جواب واضح ہے۔ ان کے خیال میں ان کی حکمرانی عوام کی امانت ہے۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے جج تو کہہ چکے ہیں کہ نوازشریف امین نہیں رہے۔ پھر ایسے شخص کو حکومت کی امانت کیسے سونپ دی جائے۔ میاں نواز شریف کی یہ تنبیہ کس کے لیے ہے کہ چال نہیں بدلی تو پاکستان معاف نہیں کرے گا۔ ان کے خلاف کون چالیں چل رہا ہے ؟ اور اس موقع پرانہیں سقوط ڈھاکا بھی یاد آگیا جس کی ذمے داری فوج کے علاوہ پیپلز پارٹی کے بانی ذ والفقار علی بھٹو پر بھی عاید ہوتی ہے بلکہ ان پر زیادہ ہوتی ہے جنہوں نے جرنیلوں سے ملی بھگت کر کے اپنے اقتدار کے لیے پاکستان کے دو ٹکڑے کروا دیے۔ نواز شریف یہ کس کو کہہ رہے ہیں کہ سقوط ڈھاکا سے کچھ نہیں سیکھا۔ لیکن خود میاں نوازشریف نے تین بار اس ملک کا وزیر اعظم بننے کے باوجود اب تک کیا سیکھاہے۔ وہ ٹکراؤ اور تصادم کی سزا بھگت چکے ہیں پھر بھی آمادہ پیکار ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے سب سے پرانے رکن اور میاں نواز شریف کے خیر خواہ چودھری نثار کئی بار سمجھا چکے ہیں کہ اداروں سے تصادم مول نہ لیں، نقصان اٹھائیں گے۔ لیکن میاں صاحب اپنے مخلص ساتھیوں کی نہیں سنتے۔ چنانچہ مسلم لیگ کی جنرل کونسل کے اجلاس میں ان کے چھوٹے بھائی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی کھل کر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ نواز شریف خوشامدیوں اور چاپلوس مشیروں سے بچیں جنہوں نے نئی گاڑیوں اور عہدوں کے لیے غلط مشورے دے کر معاملہ خراب کیا۔ شہباز شریف نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ واضح تھا کہ جن لوگوں نے عدلیہ سے لڑائی کو تیز کیا، پاناما کے مسئلے کو پارلیمان میں لے جانے کے بجائے عدالت لے جانے کا مشورہ دیا اور اسلام آباد سے طویل جلوس نکالنے کی صلاح دی اور معاوضے میں وزارتیں حاصل کرلیں یہی لوگ خرابی کے اصل ذمے دار ہیں۔ بعض مبصرین اس میں مریم نواز کو بھی شامل کرتے ہیں جن کے بارے میں چودھری نثار نے کہا تھا کہ وہ بچی ہے، سیاست کیا جانے۔ لیکن نواز شریف مریم کو اپنے جانشین کے طور پر تیار کررہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھی دانیال عزیز کو وزارت اور نئی گاڑی مل گئی۔ ماروی میمن اور وزیر قانون زاہد حامد بھی ڈکٹیٹر کے ساتھیوں میں سے ہیں ۔ دانیال عزیز کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ جب وہ تحریک انصاف میں تھے تو نواز شریف کو برا کہتے تھے ، ن لیگ میں جا کر پی ٹی آئی کو برا کہتے ہیں ۔ دراصل ایسے لوگ سیاسی خانہ بدوش ہوتے ہیں ۔ لیکن میاں شہباز شریف تو اپنے بڑے بھائی کے انتہائی وفادار ہیں اور حد سے زیادہ احترام کرتے ہیں ۔ بڑے بھیا ان کی بات پر تو کان دھریں اور خوشامدیوں کے حصار سے باہر نکلیں ۔ لیکن اقتدار کا بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو ایسے ہی درباری پسند آتے ہیں جو ہراقدام پر واہ واہ اور سبحان اللہ کہہ کر دماغ آسمان پر پہنچا دیتے ہیں اور حکمران خود کو سب سے زیادہ دانا، طاقتور اور ظل اللہ سمجھ بیٹھتا ہے۔ شہباز شریف نے جنرل کونسل کے ارکان کی طرف اشارہ کر کے اسے پارٹی کا کنبہ قرار دے کر کہا کہ اس کنبے کے مشوروں پر عمل کیا تو کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا۔ مشورہ تو صائب ہے لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ نواز شریف مخصوص ٹولے کے سوا کسی کے نہیں سنتے، اپنے بھائی کی بھی نہیں۔ میاں نواز شریف اب بھی بڑے غصے میں ہیں ۔ خود انہوں نے فرمایا کہ میرے دل میں بڑا غصہ ہے اگر میں یہ کہوں کہ غصہ نہیں ہے تو ایسا کہنا منافقت ہوگی۔ غصہ کس کے خلاف ہے، یہ بھی ظاہر ہے۔ لیکن جس کا دل غصے سے بھرا ہوا ہو وہ کبھی صحیح فیصلے نہیں کرسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ غصہ بغض اور کینے کو جنم دیتا ہے لیکن میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں جو شعر پڑھا اس کا مصرع ہے کہ ’’ دل بغض و حسد سے رنجور نہ کر‘‘۔میاں صاحب، غصہ تھوک دیں اور اپنے دل کوبغض و حسد سے پاک کرلیں۔ آپ کو سیاست میں نئی زندگی ملی ہے ، اب اسے ضائع نہ کریں اور یاد رکھیں کہ غصہ ایک ایسی آگ ہے جو پہلے غصہ کرنے والے کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔ ابھی تو انتخابی اصلاحات بل بھی عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا ہے، اس کا فیصلہ ہونے دیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میاں صاحب کا دل مزید غصے کا سامنا کرے جس کی جرّاحی ہوچکی ہے۔