انتہائی اقدام کی امریکی دھمکی

501
Edarti LOH
.گزشتہ بدھ کو واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے وزرا خارجہ خواجہ آصف اور ٹلرسن میں ملاقات ہوئی اور ظاہر ہے کہ باہمی دلچسپی کے امور پر بھی بات ہوئی ہوگی۔ اسی اثنا میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دی اور اس میں بھی مرکزی نکتہ پاکستان ہی رہا۔ امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے بیانات کو دیکھا جائے تو گاجر اور چھڑی والی امریکی پالیسی ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے۔ دھمکی کے ساتھ تھپکی بھی دی گئی ہے۔ جیمز ٹلرسن فرماتے ہیں کہ ہم مستحکم پاکستان چاہتے ہیں اور اعتماد سازی بحال کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ دونوں وزرا خارجہ کے درمیان خطے کی سلامتی، افغانستان میں بھارتی کردار اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی بات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ علاقے میں امن کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ یقیناًایسا ہی ہے لیکن خود امریکا پاکستان کو یہ کردار ادا کرنے سے روک رہا ہے۔ وہ اس کا اعتراف کرنے پر بھی تیار نہیں کہ علاقے میں بد امنی کا ذمے دار خود امریکا ہے جس نے برسوں سے افغانستان پر قبضہ جما رکھا ہے اور اب مزید انتشار برپا کرنے کے لیے وہ اپنے نئے حلیف بھارت کو بھی اہم کردار دے رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصب سے دو ٹوک یہ باتیں نہیں کہیں ہوں گی۔



باہمی تعلقات کے علاوہ ٹلرسن نے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے موضوع سے ہٹ کر حکومت پاکستان کے استحکام اور مستقبل پر تشویش کا اظہار کردیا۔ حکومت پاکستان کا مستقبل اور استحکام پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اس پر امریکا کو تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ خود امریکا میں اب تک نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت مستحکم نہیں ہوسکی ہے اور ان کے الٹے سیدھے احکامات اور کسی ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی پر خود امریکا میں تنقید ہورہی ہے اور شمالی کوریا جیسے ملک نے ان دھمکیوں پر ٹرمپ کو بھونکنے والا کتا قرار دیا ہے۔ وزیر خارجہ ٹلرسن کے بارے میں بھی یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ وہ استعفا دے رہے ہیں۔ بہر حال یہ امریکا کے اندرونی معاملات ہیں لیکن امریکا ہر ملک کے معاملات میں دخل دینا اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ ٹلرسن نے حکومت پاکستان کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ وا شنگٹن اسلام آباد میں مستحکم حکومت دیکھنا چاہتا ہے۔ ٹلرسن کا پاکستانی حکومت کے مخدوش مستقبل کا پیغام کس کے لیے ہے اور اس کی پسندیدہ حکومت کون سی ہوگی؟ امریکی وزیر خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالیوں پر زبان نہیں کھولی اسی اثنا میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے پاکستان کو دھمکیاں دے ڈالیں کہ اسلام آباد نے دہشت گردیوں کے خلاف پیش رفت نہ کی تو انتہائی اقدام کریں گے۔ تاہم اس سے قبل پاکستان سے بات کریں گے، ہم ایک بار اور اسلام آباد کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ حکمت عملی ناکام ہوئی تو صدر ٹرمپ ضروری اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مبینہ دہشت گردوں کا جائزہ لینے کے لیے جلد پاکستان کا دورہ کرنے کی ’’خوش خبری‘‘ سنائی۔



لیکن امریکی حکمرانوں کی سمجھ میں اب تک یہ بات نہیں آئی کہ سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکا ہے جو دوسرے ملکوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا اعلان کرتا ہے۔ امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کے چیئرمین نے اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا کہ دہشت گردوں سے آئی ایس آئی کے روابط ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔ امریکا اور بھارت ایک ہی زبان بولتے ہیں جب کہ خود سی آئی اے کے روابط دہشت گردوں سے ہیں۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ اور نام نہاد دانشور ہنری کیسنجر نے مشورہ دیا ہے کہ امریکا کے لیے دہشت گرد تنظیم داعش کا وجود بہت ضروری ہے اور اس کو باقی رہنا چاہیے۔ یہ اب کوئی راز نہیں کہ داعش امریکا ہی کی پروردہ ہے اور سی آئی اے کے اشاروں پر کام کررہی ہے۔ اسی اثنا میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہاہے کہ امریکا کی نئی پالیسی سازش اور خطے کے لیے خونریزی کا پیغام ہے۔ اسلام آباد کو کابل کے ساتھ تعاون بڑھانا ہوگا، دونوں بھائی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ شکر ہے کہ حامد کرزئی کی آنکھیں کھل گئیں مگر اقتدار سے دور ہونے کے بعد۔ ان کو امریکا ہی نے کابل کے تخت پر لا بٹھایا تھا۔ اس وقت بھی پاکستان نے باہم تعاون کی پوری کوشش کی تھی اور آج بھی اس کوشش میں مصروف ہے۔ ممکن ہے کہ اقتدار سے محروم ہوکر صدر اشرف غنی بھی امریکا کی اصلیت سے واقف ہوجائیں فی الحال تو یہ دیکھنا ہے کہ امریکا کا ’’انتہائی اقدام‘‘ کیا ہوگا۔ کیا ابھی کچھ کسر رہ گئی ہے؟