بے نام دہشت گردی

392

zc_ArifBeharامریکا کے شہر لاس ویگاس میں ایک میوزیکل شو پر فائرنگ کے واقعے میں اٹھاون افراد ہلاک اور پانچ سو پندرہ کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔ اس خونیں واقعے کو کئی روز گزر چکے ہیں اور ابھی تک اسے کوئی نام اور عنوان نہیں دیا جا سکا حالانکہ یہ بات اسی وقت طے ہوگئی تھی کہ فائرنگ اسٹیفن پیڈوک نامی چونسٹھ سالہ سفید فام عیسائی شخص نے کی اور اس شخص کے کسی مسلمان شدت پسند گروپ کے ساتھ روابط کا بھی ریاستی اداروں کو کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اسے فائرنگ میں ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ کہا گیا۔ مغرب کی عمومی روایت اور انصاف پسندی کو دیکھا جائے تو اس واردات کو اب تک بے نام نہیں رہنا چاہیے تھا بلکہ اسے ایک عنوان ملنا چاہیے تھا۔ یہ عنوان کیا ہو اس کے لیے زیادہ مغز ماری کی ضرورت نہیں۔ اس کا سادہ اور آسان پیمانہ یہ ہے کہ اگر اسٹیفن پیڈوک کی جگہ اس واقعے میں محمد خالد، ابو حمزہ، محمد بشیر نام کا کوئی مسلمان ملوث ہوتا تو مغربی میڈیا نے اس واقعے کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس کا نام اسلامی دہشت گردی رکھ چھوڑا ہوتا اور فائرنگ کے ذمے دار شخص کے نام کے ساتھ اسلامک ٹیررسٹ کا سابقہ لگا کر اس افسانے میں کچھ اس طرح رنگ آمیزی کر رہا ہوتا کہ عام باشندہ مسلمانوں اور اسلام سے نفرت نہ سہی مگر خوف ضرور محسوس کر نے لگتا۔ اگر اس میں مسلمان نام والا کوئی شخص ملوث ہوتا تو اس کی ذہنی حالت، معاشی حالات یا کسی اور مجبوری پر تحقیق کے بجائے اس کے مذہب اور تہذیب میں سو سو کیڑے نکالے جا چکے ہوتے۔



واقعے میں ملوث شخص ایک سفید فام اور عیسائی ہے اس لیے اس کے فعل کو ’’دہشت گردی‘‘ تسلیم کرنے میں خاصا وقت لگا۔ اب بھی پوری طرح اسے دہشت گردی تسلیم نہیں کیا گیا۔ پھر اصول مساوات کے تحت اس کا عنوان، مسیحی دہشت گردی یا سفید فام دہشت گردی بنتا تھا مگر ابھی تک اس واقعے کو بے نام اور بے عنوان رکھا گیا ہے۔ اس کے برعکس امریکا اور یورپ میں مجہول الحواس یا کسی شدت پسند گروپ سے متاثر مسلمان نام کا حامل کوئی شخص دو چار لوگوں کو کچل دے تو مغرب میں اسلامی دہشت گردی اور اسلامی دہشت گرد کی آوازوں میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی مگر امریکا جیسے بڑے ملک میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا واقعہ رونما ہوا مگر اسے اول تو دہشت گردی ہی نہیں کہا گیا جب جزوی طور پر مانا گیا تو اسے جرم کا ارتکاب کرنے والے فرد کے مذہب اور ثقافت سے جوڑنے سے کلی احتراز کیا گیا۔ یہ وہ رویہ ہے جس پر کچھ ہی دن پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے امریکی سرزمین پر ہی یہ کہتے ہوئے احتجاج اور اعتراض کیا تھا کہ ایک مسلمان کے انفرادی فعل کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر اسلامی دہشت گردی کہا جاتا ہے جب کہ ایسی ہی کسی واردات میں ملوث کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کے معاملے میں قطعی مختلف رویہ اپنایا جاتا ہے اس کے فعل کو مسیحی، یہودی اور بودھ دہشت گردی نہیں کہا جاتا۔ طیب اردگان نے اسے ایک مذہب کی حق تلفی قرار دیا تھا۔ طیب اردگان کے اس شکوے کو ابھی ہفتہ عشرہ ہی ہوا تھا کہ امریکا میں اپنی تاریخ کا بدترین واقعہ رونما ہوا اور اس میں ایک سفید فام عیسائی ملوث پایا گیا مگر اسے ایک شخص کے پاگل پن پر محمول کرکے واقعے کی سنگینی اور شدت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔



مغرب کے یہی دہرے میعار آج دنیا کے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن گئے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں Eurabia کا مصنوعی خطرہ گھڑا گیا۔ اس تصور کے پیچھے یہودی ذہن تھا اور نائن الیون کے بعد اس خطرے کو خوف میں بدلنے کی مہم شروع کی گئی۔ جس کے مطابق یورپ جس تیزی سے عرب تہذیب کے زیر اثر آرہا ہے اس کے نتیجے میں یورپ میں عربوں کا غلبہ ہوجائے گا اور یورپ کی جگہ عرب غلبے والی تہذیب یوریبیا جنم لے گی۔ اس خوف کے بعد اسلامو فوبیا شروع کر دیا گیا۔ اسلافوبیا پیدا کرتے ہوئے کچھ تلخ حقائق اور نتائج اور عواقب کو فراموش کردیا گیا۔ جب یہ کھیل شروع کیا گیا تو اس کا مقصد ایک مخصوص تہذیب اور اس کے وابستگان کو نشان زدہ بنانا، تنہا کرنا، اجنبی بنانا اور ڈریکولا کے طور پر پیش کرنا تھا۔ یہ مقاصد تو شاید حاصل کر لیے گئے۔ اچھا بھلا عام مغربی شہری، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے معاملے میں نرم اور حساس ہوتا تھا۔ دنیا میں کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی وہ سڑکوں پر نکل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا تھا۔ مسلمانوں کو اس قدر ’’وولن‘‘ بنا دیا گیا اب مغرب میں مسلمان معاشروں کی حد تک یہ حساسیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ الایہ کہ خود مغربی ممالک ایسے کسی واقعے سے کوئی سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہوں یوں سیاسی اور معاشی ضرورتوں کے سرابوں کے تعاقب میں مغرب اپنی ایک صحت مند روایت سے محروم ہو گیا۔
یہ کائناتی سچائی ہے کہ تشدد اور تعصب ایک ایسا سانپ ہوتا ہے جو بارہا پیچھے مڑکر بین بجانے والے سپیرے کو ہی ڈس لیتا ہے۔ مغربی معاشروں میں جو شدت اور تعصب ایک مخصوص تہذیب کے لیے پیدا کی گئی تھی اب اس معاشرے کا عمومی چلن بن رہی ہے۔ عمومی رویہ کسی مخصوص ڈگر تک محدود نہیں رہتا اس کی زد بھی محدود نہیں رہتی۔ یہ کچھ مخصوص مقاصد کے لیے شروع ہوکر لامحدود مقاصد اور نامعلوم منزلوں کی طرف بڑھتا چلا جا تا ہے۔ اسٹیفن پیڈوک جیسے کردار اس عمومی رویے کی پیدوار ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس دہشت گردی کے لیے ابھی تک کوئی معقول اور مناسب نام بھی تجویز نہیں کیا جا سکا۔