اس نظریے کے تحت ہر چیز ٹشو پیپر بن جاتی ہے۔ مذہب بھی‘ تصورات بھی اور افراد بھی۔
اتفاق سے نواز شریف‘ ان کی جماعت اور ان کی جماعت کے رہنما ان دنوں مذکورہ نظریے کو نئی زندگی مہیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً نواز لیگ کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک بار پھر فرمایا ہے کہ’’ امریکا اگر ہم سے بعض تنظیموں مثلاً جماعت الدعوۃ‘ لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے سلسلے میں Do More کہہ رہا ہے تو بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ یہ تنظیمیں پاکستان پر بوجھ ہیں اور ہمیں ان سے جان چھڑانی چاہیے۔‘‘ نیویارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ’’ دنیا اس سلسلے میں ہمیں وقت دے کیوں کہ ہمارے پاس ابھی ان تنظیموں سے نمٹنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔‘‘ خواجہ صاحب نے مزید فرمایا کہ: ’’1980 کی دہائی میں ہم نے امریکا کے آلۂ کار کا کردار ادا کیا۔ یہ ہماری غلطی تھی۔ امریکا نے ہمیں سوویت یونین کے خلاف استعمال کرکے دھتکار دیا۔‘‘ خواجہ صاحب نے کہا: ’’یہ لوگ (یعنی مجاہدین) 25 برس قبل امریکا کے لاڈلے تھے اور وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑایا کرتے تھے مگر آج خمیازہ پاکستان بھگت رہا ہے۔‘‘
ہم اس طرح کی باتیں سنتے اور پڑھتے ہیں تو پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی پوری تاریخ سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں لڑی جانے والی جنگ حکومت اور ریاست ہی کی جنگ تھی اور اصولی اعتبار سے یہ جنگ حکومت اور ریاست ہی کو لڑنی چاہیے تھی مگر حکمرانوں نے عوام سے کہا کہ یہ جنگ پاکستان کی بقا اور سلامتی کی جنگ ہے اور اس میں عوام کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
عوام کے ایک نظریاتی‘ حساس اور پاکستان سے محبت کرنے والے طبقے پر اس بات کا گہرا اثر ہوا۔ چنانچہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نواجونوں نے البدر اور الشمس کے نام سے تنظیمیں قائم کرکے پاکستان کی بقا اور سلامتی کی جنگ میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ لیا اور بے پناہ قربانیاں دیں، مگر پاکستان کے جرنیلوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کو بتائے بغیر اچانک بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے دس ہزار سے زیادہ افراد کو شہید کردیا گیا۔ اس دکھ کے تحت امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد مرحوم نے سقوط ڈھاکا کے بیس سال بعد ایک بیان میں شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’’جرنیلوں کو ہتھیار ڈالنے تھے تو ہمیں پہلے بتا دیتے تاکہ ہم اپنے بچوں کو بچا لیتے۔‘‘ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ تو پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے مگر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ آج بھی بنگلا دیش میں دفاع پاکستان کی جنگ لڑنے کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اس کے مرکزی رہنماؤں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس صورت حال پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے تو احتجاج کیا مگر پاکستان کے جرنیلوں اور سول حکمرانوں کو اس سلسلے میں احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے بھارتی پنجاب میں ’’خالصتان‘‘ کی تحریک نے بھارت کو بنیادوں سے ہلا دیا تھا۔ اس تحریک کا ایک نظریاتی رخ تھا۔ یہ تحریک سکھ نوجوانوں کی بڑی تعداد کو مسلح جدوجہد پر آمادہ کر رہی تھی‘ اس تحریک میں وسعت اور شدت دونوں کے امکانات روشن تھے مگر معلوم ہوا کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں مسلح جدوجہد کرنے والے سکھ نوجوانوں کی فہرستیں اچانک بھارت کے حوالے کر دی گئیں چوں کہ یہ معاملہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پیش آیا تھا اس لیے اس ضمن میں بے نظیر بھٹو بالخصوص ان کے اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری اعتزاز احسن پر الزام لگنا فطری بات تھی مگر چودھری اعتزاز نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر میں نے ’’خود‘‘ فہرستیں بھارت کو دی ہوتیں تو کیا میں پاکستان میں رہ سکتا تھا؟ غور کیا جائے خود اعتزاز احسن کی اس دلیل میں بڑا وزن ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے نے 1980ء کی دہائی میں اہلِ کشمیر کو پیغام دیا کہ آپ تحریک شروع کریں اور اسے گرم کرتے ہوئے ایک بلند سطح تک لے جائیں۔ جب تحریک اس بلند سطح تک آجائے گی تو ہم عملاً مداخلت کرکے آپ کی مدد کریں گے۔ کشمیریوں نے اپنی بے مثال جدوجہد اور قربانیوں سے چند ہی برسوں میں تحریک کو شعلۂ جوالہ بنا کر رکھ دیا۔ جب وہ یہ کرچکے تو انہوں نے پاکستان کے حکمرانوں کو ان کا وعدہ یاد دلایا۔ اس کے جواب میں کشمیریوں سے کہا گیا کہ: ’’کشمیر کے لیے پاکستان کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔‘‘ یہ قصہ ہمیں قومی سطح کی ایک ایسی شخصیت نے خود سنایا جس کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہوگا۔
آج پیپلزپارٹی خود کو طالبان دشمن باور کر رہی ہے مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ طالبان کا قیام پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے سائے میں عمل میں آیا۔ طالبان وجود میں آگئے تو پیپلزپارٹی کے رہنما وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہنچے اور ان ممالک سے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیجیے اس لیے نہیں کہ وہ اسلام کے علم بردار ہیں‘ اس لیے نہیں کہ وہ افغانستان کا حال اور اس کا مستقبل ہیں بلکہ جنرل نصیراللہ بابر کے الفاظ میں اس لیے کہ طالبان ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں۔ مگر نائن الیون کے بعد جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر ’’ہمارے بچوں‘‘ کو امریکا کے آگے ڈال دیا اور جنرل پرویز کے اپنے اعتراف کے مطابق پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے بچوں کو امریکا کے ہاتھوں فروخت کرکے کروڑوں ڈالر کمائے۔ ایسا کرتے ہوئے جنرل پرویز نے پاکستان کے حکمران طبقے کے نظریے پر عمل کیا۔ یعنی استعمال کرو اور پھینکو‘ افراد ہوں تو بھی استعمال کرو اور پھینکو‘ تحریک ہو تو بھی استعمال کرو اور پھینکو‘ تنظیمیں اور جماعتیں ہوں تو بھی استعمال کرو اور پھینکو یہاں تک کہ اب خیر سے حافظ سعید اور ان کی تنظیم‘ حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کا ذکرِ خیر ہو رہا ہے اور بلاشبہ میاں نواز شریف امریکا‘ یورپ اور بھارت کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ اس سلسلے میں سول اور فوجی حکمرانوں کی کوئی تخصیص نہیں۔
البتہ اس سلسلے میں میاں نواز شریف کی ’’ذاتی تاریخ‘‘ بہت ہی شرمناک‘ ہولناک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ میاں نواز شریف صرف جنرل ضیا الحق کا لگایا ہوا پودا نہیں تھے بلکہ وہ جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ کہتے تھے۔ بھٹو صاحب بھی کبھی جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہتے تھے مگر ’’روحانی باپ‘‘ کا مرتبہ ’’ڈیڈی‘‘ سے بہت بلند ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں صاحب جنرل ضیا کو دو‘ چار سال نہیں پندرہ‘ بیس سال تک اپنا ’’روحانی باپ‘‘ کہتے اور سمجھتے رہے۔ مگر اب وہ جنرل ضیا الحق کو ’’آمر‘‘ کہتے ہیں۔
بلاشبہ اب میاں صاحب ڈاکٹر طاہرالقادری کا نام بھی سننے کے روادار نہیں مگر کبھی وہ ڈاکٹر طاہر القادری سے پوری عقیدت کے ساتھ پوچھا کرتے تھے کہ کہیں آپ ’’امام مہدی‘‘ تو نہیں۔ قاضی حسین احمد کبھی میاں صاحب کے لیے اتنے محترم تھے کہ وہ انہیں اپنے خاندانی تنازعات میں ثالث مقرر کیا کرتے تھے مگر بعد میں انہوں نے قاضی صاحب پر یہ رکیک الزام لگایا کہ انہوں نے کشمیر کاز کے سلسلے میں ان سے دس کروڑ روپے لیے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہاں بھی استعمال کرو اور پھینکو کا نظریہ پوری طرح عمل میں نظر آتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ خواجہ آصف نے یہ تو تسلیم کرلیا کہ ہم 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کے لیے استعمال ہوئے مگر انہوں نے یہ تسلیم نہیں کیا نائن الیون کے بعد سے اب تک ہم امریکا کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکا کی غلامی کی دو ایک جیسی صورتوں میں سے ایک کی مذمت کی جارہی ہے اور غلامی کی دوسری صورت کا ذکر بھی نہیں کیا جارہا۔ اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب واضح ہے۔ پہلی صورت کا تعلق ’’جہاد‘‘ سے ہے اور دوسری کا تعلق صرف ’’مفاد‘‘ سے۔ جہاد کے لیے امریکا کا باپ بھی ناپسندیدہ ہے البتہ مفاد اور خوف کے تحت امریکا کے جوتے چاٹنا بھی قومی مفاد ہے۔ جنرل پرویز کا سب سے پہلے پاکستان ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسرائیل کا صدر رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی سلامتی کے لیے دعا کرتا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ اِن دنوں نریندر مودی رات کو سونے سے پہلے میاں صاحب کے اقتدار اور سلامتی کے لیے ضرور ’’پراتھنا‘‘ کرتے ہوں گے۔ لیکن میاں صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح انہیں استعمال کرو اور پھینکو کے نظریے سے محبت ہے بالکل اسی طرح امریکا اور بھارت بھی استعمال کرو اور پھینکو کے نظریے پر کامل یقین رکھتے ہیں۔