کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے پیچھے پولیس کی باہمی چپقلش ہو ۔ وزیراعلیٰ سندھ کی بھرپور مخالفت کے باوجود آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ عدالت کے حکم پر اپنے منصب پر بحال ہوئے ہیں ۔ اس کی وجہ سے خود پولیس افسران میں گروہ بندی ہوگئی ہے۔کچھ آئی جی سندھ کے ساتھ ہیں اور کچھ صوبائی وزیر داخلہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چاقو باز کو گرفتار نہ کر کے آئی جی کو بدنام کرنا مقصود ہو۔ ورنہ ایسا بھی کیا کہ صرف تین گھنٹے میں 5خواتین زخمی ہوگئیں۔ متاثرہ خواتین کی تعداد 15ہوگئی ہے اور حکمرانوں نے نوٹس لے کر ہدایات جاری کردی ہیں کہ یہ کیا جائے اور وہ کیا جائے۔ اس بے عملی کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ اب تک عام خواتین ہی زد میں آئی ہیں ۔ کسی با اثر اور بڑے گھر کی خاتون زد میں نہیں آئی کیوں کہ نشانہ تو سڑک پر چلنے والی عورتیں اور بچیاں ہی بن رہی ہیں ، کار سوار خواتین محفوظ ہیں ۔ عام لوگ تو خواتین ہوں یا مرد اللہ کے بھروسے پر گھروں سے نکلتے ہیں ۔ پولیس مشکوک افراد کو پکڑ پکڑ کر چھوڑ دیتی ہے۔ بغیر کسی ثبوت اور سی آئی ڈی رپورٹ کے یہ کام بھی غلط ہے۔ حکمران شاید کسی عوامی احتجاج اور مظاہرے کے منتظر ہیں۔ جس علاقے میں واردات ہو اس علاقے کے تھانے دار کو معطل کر کے دیکھیں ، کام آسان ہو جائے گا۔ وہ پولیس جو بڑے بڑے مجرم پکڑ رہی ہے اور مقابلوں میں ہلاک کررہی ہے اس سے ایک ایسا شخص نہیں پکڑا جاتا جو کوئی خطرناک دہشت گرد نہیں ہوگا۔