تربیت۔۔۔ اسوۂ نبوی ﷺ کی روشنی میں

644

غیاث الدین
نفس کا تزکیہ اور اخلاق کی تہذیب ایک کٹھن اور صبر آزما عمل ہے، یہ ایک ایسا بے آب وگیاہ صحرا ہے جہاں گرم ہواؤں کے جھونکے ہیں، بھورے رنگ کے پتھر اور گرم ریت ہے، اس دشوار گذار صحرا کو عبور کرنے کے لیے ایک طرف عزم پیہم اور جہدِ مسلسل ضروری ہے تو دوسری طرف صحرا کے نشیب وفراز سے بھی واقف ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ نفس کی تربیت اور اخلاق وکردار کی تہذیب وہ شجر طوبی نہیں ہے، جو چند دنوں کی محنت کے بعد برگ وبار لاتا ہے، بلکہ اس کے لیے سالہا سال کی محنت وجاں فشانی اور مضبوط عزم وارادے کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک تربیت اور تزکیہ نفس کے اسلوب اور اس کے طریق کار کا علم نہ ہو تو اس وقت تک اس سلسلے میں کی جانے والی کوششیں فضول اور بے فائدہ ثابت ہوں گی۔ آپؐ کی سیرت طیبہ سے اس سلسلے میں ہمیں راہنمائی لینے کی ضرورت ہے اور اس باب میں آپ کے طریق کار کو اسوہ اور نمونہ بنانا ضروری ہے۔
قرآن کریم میں آپؐ کی بعثت کے چار بنیادی مقاصد بتائے گئے ہیں، ان میں سے ایک تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق ہے۔ قرآن مجید کے ان چار بنیادی مقاصد میں سے تزکیہ نفس ایک اہم اساسی مقصد ہے، باقی تین مقاصد اس کے وسائل اور ذرائع ہیں۔ اسی لیے نبی کریمؐ کی تمام جدوجہد اور آپ کی تمام دعوتی سرگرمیوں کا محور ومقصود دراصل تزکیہ باطن اور اخلاق کی تہذیب ہی ہے اور اس کو ہر شخص کی فلاح ونجات کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید اس بات پر شاہد ہے کہ آخرت میں انسان کی نجات وکامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نفس کو گناہ کی آلائشوں سے پاک رکھے، چناں چہ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’یقیناًوہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ ناکام ونامراد ہوا جس نے اس کی گندگیوں پر پردہ ڈالا‘‘۔ (الشمس، 10۔9) ظاہر ہے کہ جب آخرت میں انسان کی نجات تزکیہ نفس پر منحصر ہے تو انبیا علیہم السلام کا اصل مشن یہی ہوا، کیونکہ وہ پور ی انسانیت کے لیے ہادی اور راہنما کی حیثیت سے دنیا میں بھیجے گئے ہیں، اسی لیے وہ لوگوں کے قلوب کو مجلیٰ اور مصفیٰ اور ان کے اخلاق وکردار کو سنوارتے ہیں اور ظاہری وباطنی نجاستوں سے پاک وصاف کرتے ہیں۔
سوال۔۔۔ تزکیہ نفس کیا ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ تہذیب اخلاق اور نفس کی تربیت کا نام ہی تزکیہ نفس ہے۔ انسان کے اندر سے عاداتِ رزیلہ نکل کر اخلاقِ حمیدہ اور صفات محمودہ پیدا ہو جائیں بس اسی کو تزکیہ کہتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی پوری زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو تربیت نفس کا پہلو ہر جگہ نظر آئے گا، آپ اپنے صحابہ کی تربیت کے لیے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے اوراس کے لیے بہتر مواقع اور مناسب حالات کی تلاش میں لگے رہتے، جب کبھی آپ کو کوئی مناسب موقع ملتا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے صحابہ کی تربیت کرتے، تربیت کے لیے بہتر اور مناسب وقت کا ہونا بھی ناگزیر ہے، ورنہ مربی کی بات صدا بہ صحرا ہوگی، اسی لیے سیدنا علیؓ نے فرمایا: دلوں کی کچھ خواہشات اور میلانات ہوتے ہیں، کبھی وہ بات سننے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کبھی وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے، تم لوگوں کے دلوں میں میلان کے وقت داخل ہو اور اس وقت اپنی بات کہو جب کہ وہ سننے کے لیے آمادہ ہوں، کیونکہ دل کا معاملہ ایسا ہے کہ جب اسے کسی بات پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے یعنی بات کو قبول کرنے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔‘‘ (انساب الاشراف للبلاذری)
نبی اکرمؐکے طریق تربیت میں حکمت ودانائی تھی، آپ موقع ومحل کے مطابق کسی کی غلطی اور کوتاہی پر براہ راست متنبہ نہیں فرماتے تھے، تاکہ مخاطب دوسرے لوگوں کے سامنے اپنی بے عزتی محسوس نہ کرے، اگر بعض لوگوں کی کچھ کوتاہیوں سے آپؐ باخبر ہوتے تو اجتماعی طور پر خطاب کرتے ہوئے اس غلط طرزِ فکر اور نامناسب عمل کی اصلاح فرما دیتے، اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ عام حضرات کے سامنے بھی اسلام کا صحیح طریقۂ عمل آجاتا، جیسے سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ جب کسی شخص کی غلطی پر تنبیہ فرماتے تو اس کا نام لیے بغیر اور اسے مخاطب کیے بغیر یوں فرماتے کہ لوگ اس طرح کیوں کرتے ہیں۔ (ابو داؤد) اسی طرح چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے آپؐ کے معمولات کے بارے میں پوچھا (جب آپؐ کی عبادت کے حالات ان کے سامنے آئے تو) ان میں سے بعض نے کہا میں کبھی شادی نہیں کروں گا اور بعض نے کہا کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا اور بعض نے کہا کہ میں رات میں نہیں سوؤں گا، صرف عبادت ہی کرتا رہوں گا (جب یہ باتیں آپ کو معلوم ہوئیں تو) آپؐ نے منبر پر کھڑے ہو کر کہا کہ کیا ہوگیا ہے کچھ لوگوں کو وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں؟ یقیناًمیں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میں شادی بھی کرتا ہوں۔ یاد رکھو! جو کوئی میری سنت سے اعراض کرے گا وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم)