محمد نجیب قاسمی
بعض تاریخی روایات میں ہے کہ معراج کے سفر میں آپؐ نے فرشتوں کو اذان دیتے ہوئے سنا تھا۔ یعنی لیلۃ الاسراء میں آپ کو اذان صرف سنائی گئی تھی، اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے مکہ مکرمہ میں اذان نہیں تھی، بلکہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد جب ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کو نماز کے قیام کی خبر کس طرح دی جائے، تو متعدد مشورے سامنے آئے، لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ سیدنا عبداللہ بن زیدؓ نے جب اپنے خواب میں سنے اذان کے کلمات نبی اکرمؐ کو سنائے، تو سیدنا عمر فاروقؓ نے بھی اذان کے لیے ان کلمات سے متعلق خواب دیکھنے کا تذکرہ کیا۔ بعد میں نبی اکرمؐ کے حکم پر سیدنا بلالؓ نے پہلی اذان سن یکم ہجری میں دی۔ اس کے بعد سے آج تک ہر مسجد میں ہر نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے، تاکہ مسلمان اپنی دیگر مصروفیات چھوڑ کر مسجد پہنچ جائیں۔ اسلام کا صرف یہی ایک حکم ہے جس کے لیے ہر روز پانچ مرتبہ اذان دی جاتی ہے۔
نمازِ فجر کی اذان سب سے پہلے دنیا کے مشرقی ممالک (مثلاً انڈونیشیا) میں شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد ملائیشیا، چین، بنگلا دیش، ہندوستان، پاکستان، افغانستان، ایران، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، عمان، قطر، بحرین، سعودی عرب، یمن، کویت، عرب امارات، عراق، سوریا، فلسطین، اردن، ترکی، مصر، لیبیا، الجزائر، یورپ اور امریکا میں مسلسل فجر کی اذان ہوتی رہتی ہے۔ اب اذانِ فجر کا یہ سلسلہ ختم بھی نہیں ہو پاتا ہے کہ انڈونیشیا میں ظہر کی اذان مسجدوں کے مناروں سے بلند ہونے لگتی ہے، بالکل اسی طرح پانچوں نمازوں کے وقت اللہ کے منادیوں کی آوازیں ہر وقت فضا میں گونجتی رہتی ہیں۔ غرضیکہ24 گھنٹے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس وقت ہزاروں مؤذن اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی گواہی نہ دے رہے ہوں۔ یہ اسلام کے حق ہونے کی ایک دلیل ہے۔
پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم میں احکام کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اسلام کے بنیادی ارکان (نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج) تک کے تفصیلی مسائل قرآن کریم میں مذکور نہیں ہیں۔ ہاں! اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے اور بتایا کہ محمدؐ اپنے اقوال وافعال سے احکام الہٰی کی وضاحت فرمائیں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کو (جو حدیث کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے) اطاعت الہٰی قرار دیا۔ (سورۃ النسا :80)
غرضیکہ نبی اکرمؐ کی اتباع کے بغیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ممکن ہی نہیں ہے۔ قرآن کریم میں دو جگہوں پر وضاحت کے ساتھ اذان کا ذکر آیا ہے۔ اے ایمان والو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے پکارا جائے، یعنی نماز کے لیے اذان ہو جائے تو اللہ کی یاد کے لیے جلدی کرو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔ (سورۃ الجمعہ:9) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا: جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے۔ یہ اذان کس طرح دی جائے؟ اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے، البتہ حدیث میں ہے۔ اسی طرح پانچوں نمازوں کے اوقات، ان کے نام، تعدادِ رکعات اور نماز پڑھنے کا طریقہ بھی ہمارے نبیؐ نے ہی بتایا ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔
اسی طرح فرمان الہٰی ہے: آج تم نماز کے لیے (لوگوں کو) پکارتے ہو تو وہ اس طرح (اذان) کو مذاق اور کھیل کا نشانہ بناتے ہیں، یہ سب حرکتیں اس وجہ سے ہیں کہ ان لوگوں کو عقل نہیں ہے۔ (المائدہ: 58)
نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اذان دینے والے سب سے زیادہ لمبی گردن والے ہوں گے، یعنی سب سے ممتاز نظر آئیں گے۔‘‘ (مسلم) ’’مؤذن کی آواز جہاں جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ ہر جاندار اور بے جان جو اْس کی آواز کو سنتے ہیں، اْس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد)
’’اذان دینے والوں کو قیامت کی سخت گھبراہٹ کا خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کو حساب دینا ہوگا، بلکہ وہ مشک کے ٹیلے پر تفریح کریں گے۔‘‘ (ترمذی) ’’جو شخص اذان سننے کے بعد اذان کے بعد کی دعا پڑھے تو اس کے لیے قیامت کے دن نبی اکرمؐ کی شفاعت واجب ہوگی۔‘‘ (بخاری)