اصولی طور پر تو احسن اقبال کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ مسلکی اختلافات کی بنا پر کسی کو کافر قرار دینا غلط ہے اور پاکستان میں اس کی فیکٹریاں چل رہی ہیں جس سے اتحاد امت خطرے میں ہے۔ لیکن احسن اقبال یہ وضاحت بھی فرمادیں کہ کیا ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والوں ، قادیانیوں اور احمدیوں کو کافر قرار دیاجاسکتا ہے یا اس کا فیصلہ بھی وہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہتے ہیں ؟ لیکن اس کا فیصلہ تو انسانوں پر مشتمل پارلیمان نے کردیا تھا۔ اور اب جو کچھ ہونے جارہا تھا وہ بھی پارلیمان کی اکثریت کا فیصلہ تھا، احتجاج نہ ہوتا تو حکومت کبھی بھی پسپا نہ ہوتی۔ اس کے باوجود لوگوں کا یہ مطالبہ برقرار ہے کہ جس نے بھی ختم نبوت کا حلف تبدیل کرنے کی کوشش کی اسے سزا ضرور ملنی چاہئے۔ یہ کوئی پاناما مقدمہ نہیں ہے کہ چلتا ہی رہے اور نا اہل قرار پانے والے بھی فیصلے کو چیلنج کرتے نظر آئیں۔ یہ وفاقی وزیر داخلہ کی ذمے داری ہے کہ مجرم کی نشاندہی کریں اور اس کا فیصلہ اللہ پر نہ چھوڑیں ور نہ ہر معاملہ ہی اللہ کے سپر د کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزیر قانون اور پرویز مشرف کے پرانے ساتھی شاہد حامد پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی برأت تو پیش کی ہے لیکن مذکورہ بل تیار کرنا وزیر قانون کی ذمے داری تھی۔ وہ بتا دیں کہ ترمیم کس نے کی تاکہ فتوے دینے کا سلسلہ بھی رک جائے۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے پر انگلی اٹھائے۔ بجا فرمایا لیکن کیا یہ فتویٰ صرف مذہبی معاملات کے لیے ہے یا اس کا اطلاق سیاست پر بھی ہوتا ہے جس میں احسن اقبال اور ان کے سرپرست سمیت پوری پارٹی دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے شغل میں بری طرح مصروف ہے۔