ایران و افغانستان سے مہنگے بھارتی ٹماٹروں کی درآمد، تاجروں کی کمائی

431

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/نیوزرپورٹر)مہنگے ٹماٹروں نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران لاہوریوں کی جیبوں سے 15 کروڑ روپے نکلوا لیے ،عید الاضحی سے قبل شروع ہونیوالے بحران کے باعث 15 محرم الحرام تک45 دنوں میں شہریوں کوٹماٹر کے حصول کیلیے اوسطاً 200 روپے فی کلو اضافی ادا کرنا پڑے ، حکومت گزشتہ 6 ہفتوں سے روزانہ چند روز میں بحران حل کرنے کی یقین دہانیاں کرا رہی ہے ، محکمہ زراعت اور وفاقی وزرانے بھارت سے ٹماٹر کی درآمدنہ کرنے پر خوب سیاست چمکائی جبکہ ایران اور افغانستان سے آنیوالے بھارتی ٹماٹر منگوانے والے تاجروں نے بڑی دیہاڑیاں لگائیں ،عوام کو ٹماٹر گزشتہ روز بھی پرچون کی سطح پر 250روپے فی کلو تک خریدنا پڑا، دوسری جانب بھارت سے ٹماٹر نہ منگوانے پر فخر کرنے والوں کیلیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کپاس کی پیداوار میں دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود واہگہ بارڈر کے راستے بڑی مقدار میں کاٹن یارن کی درآمد جاری ہے جبکہ مونگ پھلی، سرخ مرچ، زیرا اور بڑی الائچی سمیت دیگر زرعی اجناس بے تحاشادرآمدکی جاری ہیں۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق5 اکتوبر کو پاکستان کی 12 ٹیکسٹائل ملوں نے واہگہ بارڈر کے راستے کاٹن یارن کے 18 ٹرک درآمد کیے ، علاوہ ازیں 65 ہزار روپے فی من کے قریب الائچی، سرخ مرچ اور زیرا بھی منگوایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے بھارتی ٹماٹر اور افغانستان سے ہندی اخبارات میں لپٹے ٹماٹر وں کی بڑی کھیپ بھی پاکستان پہنچ رہی ہے جسے پاکستانی عوام مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں،ایسی صورتحال میں محکمہ زراعت پنجاب اور وفاقی وزارت فوڈ سیکورٹی کی جانب سے بھارتی ٹماٹروں کے ‘‘بائیکاٹ’’ کے دعوے انتہائی مضحکہ خیز اور عوام کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہیں۔ذرائع کے مطابق لاہور کی سب سے بڑی منڈی میں13 سے 18 ٹن مال سے لدی 50 سے 60 گاڑیاں آئیں تو کھپت پوری ہونے کے باعث ٹماٹر 25 سے 35 روپے فی کلو والی آئٹم ہے تاہم ڈیڑھ ماہ سے ٹماٹر مطلوبہ مقدار سے نصف کم مل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی اوسط قیمت 200 روپے فی کلو زائد ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ‘‘اپنوں کے ساتھ ٹماٹر کی قلت کو مات’’والی مہم انتہائی مضحکہ خیز ہے ، افغانستان اور کشمیر کے راستے بھارتی ٹماٹر پاکستان پہنچ رہا ہے تاہم قیمت 250 روپے ہے اگر واہگہ بارڈر سے براہ راست آ جائے تو عوام کو 30 روپے کلو مل سکتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن اور محکمہ زراعت کو عوام کی سہولت کے بجائے سیاست چمکانے کی زیادہ فکر ہے۔