سمیع اللہ ملک
آخر کیا سبب ہے کہ قطر سے برادرانہ تعلقات کی تاریخ رکھنے والے ملکوں نے اچانک ایسی پالیسی اپنائی؟ معاملے کا بظاہر جو رخ دکھائی دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ قطر نے عرب دنیا میں عوامی سطح پر شعور کی بیداری کے حوالے سے چلائی جانے والی تحریک کی حمایت کی تھی۔ ریاض اور ابوظہبی کو یہ پسند نہ آیا۔ دونوں ممالک میں بادشاہت ہے اور وہ کسی بھی حال میں نہیں چاہتے کہ ان کے ہاں جمہوریت پروان چڑھے۔ عرب دنیا میں عوامی سطح پر بیداری کی لہر سے ریاض اور ابوظہبی کی قیادت سخت پریشان ہوئی۔ انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں جمہوریت نوازی کی لہر ان کے اپنے گھر تک نہ آجائے۔قطر کی حکومت نے اخوان سے تعلقات کسی بھی دور میں کمتر سطح پر نہیں رکھے۔ اس نے جمہوریت کے حوالے سے اخوان کی سوچ کی حمایت کی ہے۔قطر کی قیادت چاہتی ہے کہ اپنے بیشتر معاملات میں آزاد اور خود مختار رہے۔ وہ ہر معاملے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طفیلی ریاست کی طرح کام نہیں کرنا چاہتی۔ خلیجی مجلس تعاون میں ایک قطر ہی نہیں، کویت اور عمان بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں سعودی عرب کی مرضی کو اولیت دینے کو تیار نہیں۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ خطے میں اسے قائد کا کردار حاصل رہے غالباً اسی وجہ سے معاملات خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔قطر نے ایران سے مراسم بڑھاکر سعودی عرب کو واضح اشارا دے دیا ہے کہ وہ ہر معاملے میں ریاض کی پالیسی سے اتفاق نہیں کرسکتا۔ سعودی قیادت کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ قطر کا ایران کی طرف جھکاؤ اس کی علاقائی قائد کی حیثیت کے لیے خطرہ ہے۔ ایسے میں خلیجی مجلس تعاون میں سعودی حکمراں خاندان اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔سعودی عرب اور امارات کی طرف سے قطر سے تعلقات کا توڑ لیا جانا قطری قیادت کے لیے بہت بڑا دردِ سر ہے۔ ایسے میں اس پر خلیجی مجلس تعاون سے نکل جانے کے لیے دباؤبڑھ رہا ہے۔
یہ صورت حال خطے کے واحد فعال اتحاد کے لیے شدید بحران پیدا کر رہی ہے۔ ریاض اور ابوظبی خطے کے رہے سہے اتحاد کو بھی داؤ پر لگارہے ہیں۔ کویت اور عمان بھی جی سی سی سے نکلنے اور نیا اتحاد تشکیل دینے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں عرب دنیا کا انتشار بڑھے گا۔عرب دنیا میں مزید انتشار کا فائدہ اگر کسی کو پہنچ سکتا ہے تو وہ امریکااورایران ہے۔ چند برس کے دوران ایران نے اپنے آپ کو خاصا مضبوط بنایا ہے۔ سعودی عرب نے قطر کو سزا دینے کا جو طریقہ اپنایا ہے وہ خاصا بچگانہ، غیر سنجیدہ اور غیر پیشہ ورانہ ہے۔ ایسا تو ایک دوسرے کی انتہائی مخالف ریاستوں کے درمیان بھی نہیں ہوتا۔ پروازوں پر پابندی لگادی گئی ہے، فضائی حدود کا استعمال بھی ممنوع ہے اور شہریوں کو بھی نکالا جارہا ہے۔ سعودی عرب کی اس روش سے کویت اور عمان کے بھی مزید بدک جانے کا خدشہ ہے۔
قطر کے معاملے میں سعودی عرب نے راتوں رات جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ انتہائی نامناسب ہے اور اس کے نتیجے میں سعودی حکمراں خاندان اور پوری ریاست کا وقار داؤ پر لگ گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تمام ہی ممالک سعودی عرب کو ایک بڑے بھائی کے روپ میں دیکھتے آئے ہیں۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی مناسبت سے سعودی عرب کو اسلامی دنیا میں خاص مقام حاصل ہے۔ اسے انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جو کچھ سعودی عرب نے قطر کے معاملے میں کیا ہے اس کے نتیجے میں خطے کے ممالک ایران کی طرف جھکنے پر مجبور ہوں گے۔ ریاض نے ایران کے معاملے میں جو کچھ چاہا ہے اس کے بالکل برعکس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
قطر کو بین الاقوامی معاملات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جو کچھ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے کیا ہے وہ پریشانی کا باعث بن رہا ہے مگر خیر، اس سے خود ریاض اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی تو مشکلات بڑھیں گی۔ سعودی عرب کا ساتھ دینے والوں میں مصر، یمن، لیبیا، مالدیپ اور بحرین نمایاں ہیں۔ ان میں سے چند تو ناکام ریاستیں ہیں۔ مالدیپ میں سعودیوں کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے اس لیے وہ تو کسی بھی حال میں سعودی عرب کے خلاف جانے کے متحمل نہیں ہوسکتا۔ 2012ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے بعد سے وہاں شدید سیاسی عدم استحکام ہے۔ اپوزیشن نے حکومت پر 19 جزائر سعودی عرب کے ہاتھ فروخت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔بحرین امور داخلہ کے معاملے میں خود مختار سہی، امور خارجہ کے معاملے میں وہ سعودی عرب کی طفلی ریاست جیسا ہے۔ اس وقت اس کی پوزیشن ایسی نہیں کہ کسی بھی حوالے سے سعودی عرب کے خلاف جائے یا اس کی بات ماننے سے انکار کرے۔
مصر میں غیر معمولی سیاسی و معاشی عدم استحکام ہے اور ایسا نہیں ہے کہ مصر سے سعودی عرب کے تعلقات مثالی ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے 2016ء میں ایران کی طرف جھکاؤاپنایا تو سعودی عرب نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تب سے اب تک معاملات معمول پر نہیں آسکے۔ مصر میں سیاسی و معاشی ہی نہیں، معاشرتی عدم استحکام بھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور مصر کے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری تو ختم کرادی ہے اور دونوں کو ایران کے خلاف محاذ پر یکجا کردیا ہے۔لیبیا نے سعودی عرب کی حمایت کا اعلان ضرور کیا ہے مگر یہ اعلان لیبیا کی علاحدگی پسند انتظامیہ کی طرف سے آیا ہے جو سعودی عرب اور مصر کی حمایت سے تبروک میں قائم ہے۔ باضابطہ ریاستی سطح پر حمایت کا اعلان کیا جانا ابھی باقی ہے۔
یمن کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی اپنی حالت بہت خراب ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کچھ زیادہ مفہوم نہیں رکھتا۔ اس وقت یمن میں 3 فریق پورے ملک پر تصرف کے دعویدار ہیں۔ سعودی عرب کی حمایت سے عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت قائم تو ہے مگر اس کے کنٹرول میںچند ہی علاقے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے تعاون سے الزبیدی فورسز بھی میدان میں ہیں اور ایران کی حمایت سے حوثی باغی بھی بعض علاقوں پر قابض ہیں۔یمن کے صدر عبدربہ منصور ہادی نے قطر پر دہشت گردی میں معاونت کا الزام عائد کیا ہے مگر یہ بات کسی طور بھلائی نہیں جاسکتی کہ مارچ 2015ء میں انہیں حوثیوں کے قبضے سے نکالنے کے آپریشن میں قطر نے بھی حصہ لیا تھا۔ ساتھ ہی یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ یمن کے حوالے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مؤقف میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ قطر کے خلاف جانے کے نام پر وہ ایک تو ہوئے ہیں مگر بہت جلد اختلافات ابھریں گے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکا پر سعودی عرب پورا بھروسا نہیں کرسکتاکیونکہ سب سے بڑاہوئی اوربحری مستقر اس نے قطرمیں قائم کررکھاہے جہاں سے خطے کے تمام ممالک پر اس کی کڑی نگاہ بھی ہے اور کارروائی کے لیے 10 ہزارسے زائدسریع الحرکت فوج کو بھی تعینات کررکھاہے،یہی وجہ ہے کہ بائیکاٹ کے اس عمل پرٹرمپ نے اپنے دورۂ سعودی عرب کوانتہائی کامیاب قراردیتے ہوئے خوشی سے بغلیں بجائیں لیکن اس سے اگلے دن ہی مصالحت کامشورہ دے ڈالا۔ یہ بھی ہمیشہ سے جاری امریکی دوغلی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں اس نے سعودی عرب اورقطرسمیت خلیج کے دیگرممالک کواپنے گوداموں میں پڑے ہوئے اسلحہ کوفروخت کرنے کے نہ صرف معاہدے کرلیے ہیں بلکہ اپنے ملک کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے اگلے کئی برس کے لیے روزگارکاسامان مہیاکردیاہے ۔اس سلسلے میں سعودی عرب کادباؤمیں رکھنے کے لیے امریکی کانگریس نے گزشتہ سال ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت نائن الیون کے واقعات میں ملوث ہونے کے شبہہ میں سعودی حکومت پر بھی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ٹرمپ کی شاطرانتظامیہ کویہ بخوبی علم ہے کہ امریکی ڈوبتی ہوئی معیشت کوبچانے کے لیے امریکی بینکوں میں عربوں کے سرمایہ کوکس طرح قابومیں کرناہے۔اس لیے اب یہ ضروری ہوگیاہے کہ سعودی عرب اوراس کے دیگراتحادیوں سمیت ایران بھی فوری طورپرقصرسفید کے چنگل سے نکلنے کے لیے کوئی ایسالائحہ عمل وضع کریں کہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی محفوظ رہے۔اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سعودی حکومت ان تمام پڑوسی مسلم ریاستوں سے بلاتاخیر ’شفیق ماں‘ جیسا سلوک روارکھے اور دوست ممالک کی مصالحانہ کوششوں کوخوش دلی سے قبول کرتے ہوئے بائیکاٹ کوختم کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قطر کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش میں سعودی عرب ہی الگ تھلگ ہوکر رہ جائے۔ بہتر یہ ہے کہ خطے کے مسائل پر مل کر توجہ دی جائے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے معاملات کو افہام و تفہیم سے طے کیا جائے۔