فلسطین قدیم میں دنیا کی چوتھی شہنشاہی

266

مولانا سید طفیل احمد
گزشتہ سے پیوستہ
حکومت کا زوال
مگر ہر کمالے را زوال۔ 40 سال کی پیغمبری کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ اس سے ملک کا زوال شروع گیا اور وہاں کی مذہبی حکومت زیادہ نہ چل سکی۔ 931 ق۔م۔ میں فلسطین کے 2 ٹکڑے ہوگئے، اسرائیل اور جوڈیا۔ اسرائیل کی حکومت 240 سال اور جوڈیا کی حکومت 375 سال رہی۔
جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے کہ فلسطین کئی حکومتوں کی گزر گاہ تھا، اس لیے وہاں کبھی اہل مصر اور کبھی اہل بابل کا غلبہ رہتا تھا۔ 691 ق۔م۔ میں شاہان آشور (Jigla the pelesar and Sola maniesar) بنو اسرائیل کے 10 فرقوں کو گرفتار کرکے لے گئے، اور آشور اور میڈیا کے درمیان انہیں آباد کیا۔ تب سے وہ گم شدہ فرقے کہلائے۔ اسی طرح 586 ق۔م۔ میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اہل فلسطین کی سرکشی اور محصول نہ دینے کے قصور میں یروشلم پر حملہ کیا۔ مسجد بیت المقدس کو برباد کیا اور 3 سرداروں پر مقدمہ قائم کرکے 10 ہزار یہود کے ساتھ بابل لے گیا۔ یہ لوگ وہاں 50 سال رہے۔ 536 ق۔م۔ میں ایران کے مشہور بادشاہ کیخسرو نے اہل بابل کو شکست دے کر ان یہود قیدیوں کو رہا کیا اور یہ لوگ اپنے وطن میں واپس آئے۔ تب حضرت دانیال علیہ السلام نے برباد شدہ بیت المقدس کی ازسر نو تعمیر کی۔



مؤرخین کا خیال ہے کہ بنو اسرائیل کو قید بابل کے زمانہ میں جہاں ایرانیوں کی حکومت تھی، پوری آزادی حاصل تھی۔ اس آزادی نے ان کے تمدن و معاشرت کو بلند کیا اور ان میں قومی احساس پیدا کیا۔ اسی زمانہ میں جو 444 ق۔م۔ کے قریب تھا، ان کے پیشوائوں کو صحائف آسمانی جمع کرنے کا خیال آیا۔ اس بارے میں حضرت عزرا علیہ السلام اور ہزقیل علیہ السلام کے نام خاص طور پر آتے ہیں، جنہوں نے عہد نامہ قدیم کو ترتیب دیا۔
ایرانیوں کی حکومت کے بعد فلسطین پر سکندر اعظم کا حملہ ہوا اور اس سے بنو اسرائیل کے کندھوں پر یونانیوں کی حکومت کا بار رکھا گیا۔ پھر مصریوں کی حکومت آئی، جن کے بادشاہ ٹالیمی نے خاص سبت کے دن یروشلم پر حملہ کیا۔

(جاری ہے)