مشتبہ مقابلے اور چھری مار

177

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مشتبہ مقابلوں کے ماہر راؤ انوار اپنی ریٹائرمنٹ کا وقت آنے سے پہلے پہلے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارنے کا ریکارڈ بنانا چاہتے ہیں۔ ابھی پانچ افراد کے مشتبہ مقابلے میں مارے جانے کے حوالے سے ان میں سے بیشتر کے گمشدہ ہونے اورگھروں سے رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کی رپورٹس اور عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہونے کے حوالے سے سخت تنقید ہورہی تھی کہ راؤ انوار کے مشتبہ مقابلے میں مزید چار افراد ماردیے گئے انہیں دہشت گرد کہا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پورے مقابلے میں جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔ ان ملزمان کے بارے میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ یہ رینجرز اہلکاروں کے قتل اور پولیس پر حملوں میں ملوث تھے۔ جس قسم کے نام بتائے جارہے ہیں جیسے سعید لوہا، یہ نام القاعدہ جیسی تنظیم کے رہنماؤں کے نہیں ہوتے۔ ایسے نام متحدہ کے کارکنوں یا ٹارگٹ کلرز کے ہوتے ہیں۔ ویسے تو یہ نام پولیس ہی دیتی ہے۔ لیکن کم از کم القاعدہ وغیرہ کے نام کے ساتھ یہ نام تو بالکل ہی لگا نہیں کھاتا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ القاعدہ برصغیر کا امیر تھا۔ راؤ انوار کے مقابلوں کی خاص بات یہی ہے کہ سارے مقابلے ایک خاص علاقے میں ہورہے ہیں جہاں دنیا بھر سے القاعدہ، طالبان، داعش،لشکروں وغیرہ کے امیر مرنے کے لیے آرہے ہیں۔ اتنی خوفناک تنظیم کے امیر کے ساتھ تین آدمی تھے اور دنیا کو ہلا دینے والے یہ دہشت گرد ڈیڑھ گھنٹے میں ایک پولیس والے کو بھی نہیں مارسکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن کے گھروں سے بچے اٹھائے جاتے ہیں وہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر آج بات کی تو کل کسی اور کو نہ اٹھا لیں۔ سیاسی جماعتیں خاموش ہیں لے دے کر صرف جماعت اسلامی ہی آواز اٹھاتی ہے۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عدالتیں کیا کررہی ہیں بندہ گھر سے گرفتار ہورہا ہے گھر والے بتارہے ہیں کہ رینجرز لے گئے ہیں۔ لیکن عدالتیں صرف استفسار کرکے ایک ماہ بعد کی تاریخ دے دیتی ہیں۔ یوں ایک ایک آدمی کی گمشدگی کو سال دو سال لگ جاتے ہیں اس دوران راؤ انوار مزید چار لوگوں کو ہلاک کردیتے ہیں۔ ایسے درجن بھر لوگ تو ہونگے جن کے پاس اپنے بچوں کے گھروں سے گرفتاری کے ثبوت موجود ہیں وہ خود عدالت نہیں جاسکتے تو کوئی تو آگے آئے اور انہیں تحفظ فراہم کرے کیا یہ لوگ پاکستانی نہیں ہیں ان میں سے کسی کا مقدمہ بھی عدالت میں نہیں چلا یا گیا کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ بھارت کشمیر میں ایسا کرے تو اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے لیکن اگر پاکستانی پولیس اور ادارے یہی کام کریں تو اسے کیا کہا جائے گا۔ ؟یہ بات بہت غور طلب ہے کہ جس روز راؤ انوار نے پہلے مقابلے میں 5 افراد مارے تھے اسی روز گلستان جوہر میں ایک چھری باز کی خبریں میڈیا میں آنے لگیں، خواتین پر چھری مار کے حملوں کی بات نہایت تشویشناک ہے اور جب میڈیا اس کو بری طرح پیٹ رہا ہو تو کوئی سوال بھی نہیں کرسکتا ،اُسے چھری مار کا ہمدرد کہا جائے گا۔ لیکن ذرا غور کریں چھری مارنے والے نے 9 خواتین کو زخمی کیا اور راؤ انوار نے 9 جانیں لے لیں 9 گھروں کے چراغ گل کردیے۔ پورا میڈیا بھیڑوں کی طرح بریکنگ نیوز کی بھیڑ چال میں دوڑا چلا جارہا تھا۔ دارالصحت اسپتال کے ارد گرد کی گلیوں میں صرف ٹی وی چینلز کی گاڑیاں تھیں اور ٹی وی چینلز پر چھری مارنے والے کے بارے میں بار بار خبریں چل رہی تھیں۔ 9 زخمی خواتین اور 9 گھرانوں کے چراغ گل۔۔۔ ہے کوئی موازنہ۔۔۔ یہ سب کے سوچنے کی بات ہے کس کی کیا ذمے داری ہے اسے خود فیصلہ کرنا ہوگا۔ ورنہ اگلی لاش اٹھانے کی تیاریاں کریں۔