پاکستان میں جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والے نہ جانے کیوں جمہوریت کو مجرد یا قائم بالغیر نظریہ سمجھتے ہیں جس کا عوام سے، ان کے مسائل سے، ان کی خوہشات اور تمناؤں سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔ صرف سیاست دانوں کی توتی کی آواز ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 7 اکتوبر58 کو جب ملک کے پہلے فوجی طالع آزما، ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت بہت کم لوگوں نے جمہوریت پر اس کاری وار پر تاسف کا اظہار کیا تھا۔ اس کے برعکس عوام نے اس بات پر خوشیاں منائی تھیں کہ فوج کے آنے کے بعد شہر کی سڑکوں کی صفائی ہوگئی ہے، گلیوں کی نالیاں صاف ہوگئی ہیں، بسیں وقت پر چلنے لگی ہیں، سرکاری دفاتر میں افسر اور ملازم وقت پر حاضری دینے لگے ہیں اور رشوت ستانی کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔
ہم ہر سال 7 اکتوبر 58 کا عرس مناتے ہیں اور جمہوریت کے بارے میں بلند بانگ فلسفے بگھارتے ہیں لیکن جمہوریت سے وابستہ عوام کی خواہشات اور امنگوں کو سراسر بھول جاتے ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ پاکستان عصری تاریخ کا واحد نہیں تو پہلا ملک تھا جو جمہوریت کی دین تھا۔ اور انتخابات کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔
ہم یہ حقیقت بھی بھول گئے ہیں کہ 54ء میں ہمارے حکمرانوں میں ایک موج دماغ اٹھی کہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ایک یونٹ میں مدغم کر دیا جائے۔ اس وقت ملک میں نام نہاد جمہوریت تھی، کسی نے اس وقت عوام کی رائے معلوم نہیں کی اور نہ ان کی خواہشات کا خیال رکھا بلکہ اس کے برعکس سندھ میں اس کی مخالفت کو کچل کر رکھ دیا گیا۔ سندھی کا قدیم ترین اخبار الوحید بند کر دیا گیا اور ممتاز رہنما عبدالستار پیر زادہ اور ہاری لیڈر حیدر بخش جتوئی سمیت سیکڑوں رہنماؤں کو قید کر دیا گیا۔
ون یونٹ گورنر جنرل غلام محمد کی ذہنی اختراع تھا۔ بنیادی مقصد پاکستان کے پانچ صوبوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنا تھا اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کرنا تھا۔ بعد میں56 ء کے آئین میں پیریٹی کا غیر جمہوری اصول ملک پر تھوپا گیاجس نے ملک کو دو لخت کردیا۔ اس حقیقت کو بھی تاریخ کا ادراک رکھنے والے، نظر انداز نہیں کر سکتے کہ برصغیر کی آزادی سے ذرا پہلے خان آف قلات نے اپنی ریاست اور بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں برطانوی راج سے مذاکرات کے بعد ایک سمجھوتے میں یہ بات منوا لی تھی کہ برصغیر میں اقتدار کی منتقلی سے پہلے قلات مکمل آزادی حاصل کر لے گا اور اس کی وہی حیثیت ہوگی جو 1839سے قبل قلات اور بلوچستان کی تھی۔ اسی سمجھوتے کی بنیاد پر 4 اگست 47ء کو دلی میں بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں ایک گول میز کانفرنس ہوئی تھی جس میں وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن، قائد اعظم، لیاقت علی خان، قلات کے حکمران اور ان کے وزیر اعظم سر سلطان احمد شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس میں طے ہوا تھا کہ قلات ریاست 5 اگست 47ء سے آزادی حاصل کر لے گی۔ پاکستان کی حکومت نے اس فیصلہ سے مکمل اتفاق کیا تھا۔ اس سمجھوتے کا 11اگست 47ء کو باقاعدہ اعلان کیا گیا اور اسی کی روشنی میں قلات کی اسمبلی میں ریاست کی آزادی کی قرارداد منظور ہوئی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سمجھوتے سے قبل، قائد اعظم، خان قلات کے وکیل کی حیثیت سے یہ دلائل پیش کرتے رہے تھے کہ قلات کی ریاست مکمل آزادی کے حصول کی حق دار ہے کیونکہ اس کی حیثیت ہندوستان کی دوسری ریاستوں ایسی نہیں ہے۔ بلوچستان کو پہلا گھاؤ اس وقت لگا جب قیام پاکستان کے فوراً بعد دسمبر 47ء میں قائد اعظم نے خان قلات پر دباؤ ڈالا کہ وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں۔ اس دوران پاکستان نے بلوچستان کی ریاست خاران، مکران اور لسبیلہ کو پاکستان میں شمولیت پر آمادہ کر لیا اور یوں خان قلات بالکل اکیلے رہ گئے اور جب پاکستان کی فوج پسنی اور جیوانی کی طرف روانہ ہوئی تو خان قلات پاکستان میں شامل ہونے پر مجبور ہو گئے۔ کیا اس اقدام کو اس جمہوری اقدام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس میں فیصلے عوام کی مرضی اور خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے سلسلے میں ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آخر صوبہ سرحد بھی ریفرنڈم کے نتیجے میں پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ 4 جولائی 47ء کے اس ریفرنڈم میں 99 فی صد ووٹروں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیے۔ بلوچستان کے ساتھ جو مختلف رویہ اختیار کیا گیا اس کا گھاؤ ابھی تک نہیں بھرا ہے۔
جب جمہوریت سے عوام کا ربط ختم ہوجائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو 71 میں ہوا اور مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے جمہوری حقوق سے محروم کیا گیا اور ہندوستان کو حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا گیا اور اس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوگیا۔
ایسا ہی ذریں موقع پاکستان کو 1962میں ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کے دوران ملا تھا۔ میں ان دنوں دلی میں تعینات تھا۔ چینی خبر رساں ایجنسی سنہوا کے نامہ نگار وانگ شو میرے پرانے دوست تھے جو ایک زمانہ میں کراچی میں تعینات رہ چکے تھے۔ وانگ شو چو این لائی کے ساتھ لانگ مارچ میں پیپلز لبرشن آرمی میں شامل رہ چکے تھے۔ انہیں فوجی حکمت عملی میں بڑی وسیع مہارت حاصل تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ صرف ڈنڈوں سے لیس شہریوں کو پنجاب میں بھیج دے کیونکہ پورا پنجاب پولیس سے بھی خالی ہوگیا ہے اور اسے نیفا میں لڑنے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی شہری جنگ کے اختتام تک پنجاب کے ایک بڑے علاقہ پر قابض رہیں اور جنگ کے بعد کشمیر کے مسئلے پر بارگین کی جاسکتی ہے۔
اس دوران دلی میں امریکی سفیر گیلبرتھ کو خطرہ تھا کہ پاکستان اس جنگ میں چین کا ساتھ دے سکتا ہے۔ چناں چہ انہوں نے فوری طور پر صدر کینیڈی سے درخواست کی کہ وہ اپنے مشیر ایورل ہیری مین کو برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈنکن سینڈیز کے ہمراہ دلی بھیجیں اور نہرو کو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے بات چیت پر راضی کریں۔ چناں چہ راتوں رات دونوں ایورل ہیری مین اور ڈنکن سینڈیز دلی پہنچے اور نہرو سے ملاقات کی۔ اور خطرناک حالات کے پیش نظر نہرو کو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے بات چیت پر راضی کر لیا۔ اسی رات کو یہ دونوں اسلام آباد روانہ ہو گئے اور ایوب خان سے ملاقات کی۔ ایوب خان بے چون وچرا اس بات پر راضی ہوگئے کہ وہ اس جنگ میں چین کا ساتھ نہیں دیں گے یا ایسی کوئی کارروائی نہیں کریں گے جس سے چین کو فوجی فائدہ پہنچے۔ نہرو کے وعدے کے مطابق 63 میں بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے او ر جیسے کہ لوگوں کا خیال تھا بے نتیجہ رہے۔ پاکستان نے ایک بہترین موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ پتا نہیں ایوب خان نے اس وقت امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے میں کیا مصلحت سمجھی تھی۔ ایسی ہی فاش غلطیاں اسی وقت ہوتی ہیں جب جمہوریت کو ایک خاص طبقہ کے مفادات کا آلہ کار بنا لیا جائے اور جمہوریت سے عوام کی خواہشات اور مفادات سے رابطہ منقطع کر دیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی قسمت میں اب جمہوریت کے چار عرس رہ گئے ہیں۔