’’لَا اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً‘‘ کے معنی ہیں: ’’میں اس (دعوتِ حق) پرتم سے کوئی اجر نہیں مانگتا‘‘۔ اس مضمون کی آیات قرآنِ مجید میں گیارہ مقامات پر آئی ہیں، ان میں سے چار مقامات سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کے بارے میں ہیں اور سات مقامات حضراتِ نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب علیہم السلام کے بارے میں ہیں۔ پہلے ہم دیگر انبیائے کرام کے حوالے سے آیات کا ترجمہ بیان کرتے ہیں: سیدنا نوح ؑ اپنی قوم سے مخاطِب ہوکر فرماتے ہیں: (1) ’’اے میری قوم! میں اس (دعوتِ حق) پر تم سے کوئی مال طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو فقط اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے، (ہود: 29)‘‘۔ (2): ’’اور میں اس (دعوتِ حق) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو فقط ربّ العالمین کے ذمے ہے، (الشعراء: 109)‘‘۔ سیدنا ہود ؑ فرماتے ہیں: (3) ’’اے میری قوم! میں اس (دعوتِ حق) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو فقط اُس کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا، کیا تم سمجھتے نہیں ہو، (الانعام: 51)‘‘۔ (4) ’’بے شک میں تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں، پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں اس (دعوتِ حق) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف ربُّ العالمین کے ذمے ہے، (الشعراء: 125-127)‘‘ ۔ (5) سیدنا صالح ؑ فرماتے ہیں: ’’بے شک میں تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں، پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں اس (دعوتِ حق) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف ربُّ العالمین کے ذمے ہے، (الشعراء: 143-145)‘‘۔ (6) سیدنا لوط ؑ فرماتے ہیں: ’’بے شک میں تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں، پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں اس (دعوت حق) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، بس میرا اجر تو ربُّ العالمین کے ذمے ہے، (الشعراء: 162-164)‘‘۔ (7) سیدنا شعیب ؑ فرماتے ہیں: ’’بے شک میں تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں، پس
تفسیر کا اعلیٰ درجہ تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔ سورۂ ہود: 29میں تو ہود ؑ صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں: ’’میں اس (دعوتِ حق) پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام نے جس اجر کی نفی فرمائی ہے، اس سے دنیوی اجر مراد ہے اور ظاہر ہے کہ انبیائے کرام ؑ پیغامِ رسالت کو پہنچانے کے لیے کسی دنیوی صلے کی تمنا ہرگز نہیں کرسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ تین مقامات پر نبی کریم ؐ جب یہی بات اپنی قوم سے فرماتے ہیں تو آپ کوقوم کی جانب سے جو اجر یا جزا مقصود ہے، وہ قبولِ حق ہے، اس لیے دو مقامات پر آپ ؐفرماتے ہیں: ’’یہ تو نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لیے‘‘ اور تیسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں: ’’سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے ربّ کی طرف راستے کو اختیار کرلے‘‘۔ یہ معنی حدیث پاک کے بالکل مطابق ہے: آپ ؐنے سیدنا علیؓ سے فرمایا تھا:
سہل بن سعد بیان کرتے ہیں: انہوں نے نبی ؐ کو غزوۂ خیبر کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا: میں ضروریہ جھنڈا کل اُس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، راوی بیان کرتے ہیں: لوگ شب بھر مضطرب رہے کہ (کل صبح) جھنڈا کسے عطا کیا جاتا ہے، پس جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ؐ کے پاس آئے، ہر ایک کی تمنا تھی کہ یہ اعزاز اُسے ملے۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟، آپ کو بتایا گیا: انہیں آشوبِ چشم کی شکایت ہے، آپ ؐ نے فرمایا: اُسے بلا ؤ، سو وہ بلائے گئے، پھر آپ ؐ نے اُن کی آنکھوں میں اپنا لعابِ مبارک لگایا اور اُن کے لیے دعائے صحت فرمائی، وہ ایسے صحت یاب ہوئے کہ گویا انہیں کبھی تکلیف ہوئی ہی نہیں تھی، سو آپ نے جھنڈا انہیں عطا کردیا۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا: یارسول اللہ! کیا میں اُن سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ ہم جیسے ہوجائیں (یعنی اسلام قبول کرلیں)، آپ ؐ نے فرمایا: نرم روی سے چلتے رہو یہاں تک کہ تم اُن کی سرزمین پر پہنچ جاؤ، پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں یہ بتاؤ کہ اُن پر اللہ کا کیا حق واجب ہے، پس اللہ کی قسم! اگر تمہاری وجہ سے ایک شخص بھی ایمان لے آئے، تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں (کے ریوڑ) سے بہتر ہے، (بخاری)‘‘۔
’’حُمُرُ النَّعَمْ‘‘ یعنی سرخ اونٹوں کا ریوڑ، دولتِ دنیا کی کثرت سے استعارہ ہے، گویا رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جہاد کا مقصد کشور کشائی اور مالِ دنیا کا حصول نہیں ہے، بلکہ دعوتِ دین کو پھیلانا ہے، اس لیے آپ ؐ نے ایک شخص کے ایمان لانے کو بھی دنیا کی دولت سے بڑی نعمت قرار دیا۔ پس معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا مقصود دنیا کا مال جمع کرنا نہیں تھا بلکہ عالَمِ انسانیت کو نعمتِ ایمان سے سرفراز کر کے ان کی عاقبت کو سنوارنا تھا۔
جو چار مقامات رسول اللہ ؐ کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہیں، اُن میں سے تین یہ ہیں: حضرات ابراہیم، اسحاق، یعقوب، نوح، داوٗد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، الیاس، اسماعیل، الیَسَع، یونُس اور لوط علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (1) ’’(اے نبی!) یہی وہ لوگ ہیں، جنہیں اللہ نے ہدایت دی، سو آپ بھی ان کے طریقے پر چلیں، آپ کہیے! میں اس (دعوتِ حق) پرتم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ تو صرف تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے، (الانعام: 90)‘‘۔ (2) ’’اور ہم نے آپ کو فقط بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے، آپ کہیے! میں تم سے اس (دعوتِ حق) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے ربّ کی طرف راستے کو اختیار کرلے، (الفرقان: 56-57)‘‘۔ (3) ’’آپ کہیے! میں تم سے اس (دعوتِ حق) پر کوئی اجر نہیں مانگتا اور میں تکلّف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، یہ تو فقط نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لیے‘‘۔ ان تین مقامات پر رسول اللہ ؐ طلبِ اجر کی نفی فرمائی ہے، دومقامات پر فرمایا: یہ تو تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے اور ایک مقام پر فرمایا: سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے ربّ کی طرف راستے کو اختیار کرلے، الغرض ان تینوں آیات میں بنیادی مقصد دعوتِ دین کا ابلاغ اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا بتایا گیا ہے۔
چوتھے مقام پر اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتا ہے: (4)’’آپ کہیے! میں اس (دعوتِ حق) پرتم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے قرابت داروں کی محبت کے، (الشعراء: 23)‘‘۔ دیگر دس مقامات کے برعکس یہاں بظاہر اسلوب تبدیل ہوجاتا ہے اور اس لیے اس پر اشکالات پیدا ہوئے اور مفسرینِ کرام کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہر نبی تو اپنی قوم سے یہ کہے: ’’میں اس (دعوتِ حق) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا‘‘ اور آپ ؐ بھی تین مقامات پر یہی بات کریں، مگر ایک مقام پر یہ کہیں: ’’سوائے (میرے) قرابت داروں کی محبت کے‘‘۔ پس اس کے تین معنی بیان کیے گئے ہیں، ایک میں عموم ہے:
’’سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: کفارِ مکہ نے کہا: اگر آپ یہ سب کچھ دولت کی خاطر کر رہے ہیں تو ہم آپ کو اتنا مال دیں گے کہ آپ مکہ کے امیر ترین شخص ہوجائیں گے اور آپ جس عورت سے شادی کرنا چاہیں، ہم اس کا بھی انتظام کردیں گے، بس آپ ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے ایک درمیانی راستہ بھی تجویز کیا کہ ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرلیں گے اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات وعُزّّیٰ کی عبادت کرلیں، یعنی سودے بازی کی بھی پیشکش کی۔ اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکافرون نازل فرمائی، (جامع البیان)‘‘۔ الغرض کفار کو واضح پیغام مل گیا:
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق وباطل نہ کر قبول
چنانچہ علامہ پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں:
متعدد مقامات پر مختلف انبیائے کرام کے یہ اعلانات مذکور ہیں: ’’میں تم سے کسی اجر کا سوال نہیں کرتا، میرا اجر تو ربّ العٰلمین کے ذمے ہے‘‘۔
(باقی صفحہ 9 پر)
جب دیگر انبیاء اپنی قوموں سے نہ کوئی اجر طلب کر رہے ہیں اور نہ کسی دنیوی اور مالی منفعت کی خواہش کر رہے ہیں، تو سید المرسلین کے متعلق یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ آپ ؐ نے کسی قسم کی منفعت کی خواہش کی ہو۔ دنیا کی کوئی بڑی سی بڑی نعمت، کسی قارون کے بھرے ہوئے خزانے، ارضِ خدا کی فرماں روائی، ان دعا ہائے نیم شبی اور گریہ ہائے سحر گاہی کا صلہ نہیں ہوسکتی، جن سے رحمۃ للعالمین ؐ نے نوع انسانی کو مشرف فرمایا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مُرقع دل ربائی وزیبائی کی نوکِ مژگاں پر لرزتا ہوا ایک آنسو سارے عالم سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر حضور اپنی اِس دل سوزی واشکباری کے معاوضہ کی تمنا بھی کرتے، تو آپ ؐ کی شان رفیع سے بہت فروتر ہوتا، دشمنوں کو انگشت نمائی کا موقع مل جاتا، یہودی اور عیسائی ہمیں طعنہ دے دیتے کہ ہمارے رہنماؤں نے تو یہ اعلان کیا: ’’میں تم سے اس (دعوتِ حق پر) کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو بس ربّ العالمین کے ذمے ہے‘‘ اور تمہارے رسول نے ’’مَوَدَّۃِ قُرْبٰی‘‘ یعنی اپنے اہل بیت کی محبت کا سوال کر کے اپنی ساری محنت کا معاوضہ طلب کرلیا، العیاذ باللہ!۔ حالانکہ اسی سورت کی آیت: ۲۰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ کرتا ہے، ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو شخص دنیا کی کھیتی کا ارادہ کرتا ہے، ہم اُس کو اُس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور اُس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘، (ضیاء القرآن)‘‘۔ (باقی آئندہ)