جمہوری ممالک میں عدلیہ کمزور ہو تو جمہوریت بھی کمزور ہوتی ہے گویا جمہوریت کا استحکام طاقت ور عدلیہ سے مشروط ہوتا ہے مگر المیہ یہی ہے کہ انتخابات کو موم کی ناک بنا دیا گیا ہے جو سیاسی جماعت الیکشن جیت کر حکومت بناتی ہے وہ جمہوری اداروں کو اپنی مرضی کے تابع رکھنا چاہتی ہے۔ اداروں کے گلے میں غلامی کا پٹا ڈال دیا جاتا ہے یوں عوام کی قسمت میں محکومیت لکھ دی جاتی ہے اور حکمراں لوٹ مار کر اپنا حق قرار دے کر عوام پر اپنے فیڈیٹ کا کوڑا برسانے لگتے ہیں۔
جمہوری ممالک میں حکومت بنانے کے لیے پچاس فیصد ووٹ کا حصول ضروری ہوتا ہے ہمارے پاس ووٹ نہیں سروں کا شمار کیا جاتا ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر خود کو بائیس کروڑ عوام کا منتخب لیڈر قرار دیتے ہیں المیہ یہ بھی ہے کہ وطن عزیز کا با اثر اور با اختیار طبقہ سیاسی اخلاقیات سے عاری ہے جمہوریت سے سیاسی اخلاقیات کا عنصر نکال دیا جائے تو جمہوریت آمریت کی مکرو ترین صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بھٹو مرحوم سے میاں نوزا شریف کی حکمرانی تک کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ حکمرانوں نے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے ہر وہ اقدام کیا جس نے سیاسی اخلاقیات کا خسارہ نکال دیا۔
یہ کسی افسوس ناک صورت حال ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے برسر اقتدار آنے والوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو تاریخ میں انہیں امر کر دے یہ لوگ تاریخ میں زندہ ضرور رہیں گے مگر ان کا مقام تاریخ کا کچرا گھر ہو گا۔
جنرل ضیاء الحق دور میں حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو بیس ہزار روپے دیے جاتے تھے، پنشن یافتہ افراد کو یہ سہولت دی گئی تھی کہ اگر وہ کاروبار کے اہل نہیں تو بینک انہیں ایک لاکھ روپے پر 1300 روپے ماہانہ ادا کرتا تھا مگر میاں نواز شریف برسر اقتدار آتے تو موصوف نے دونوں سہولتیں چھین لیں فوجی حکمرانوں کے دور میں پینشن میں بیس فیصد اضافہ ہوتا تھا ،عوامی حکمران دس فیصد پر ہی ٹرخا دیتے ہیں۔ زرداری صاحب کو لاکھ برا کہا جائے مگر انہوں نے پینشن یافتہ افراد کو میڈیکل الاوئنس کے نام پر کم از کم ایک ہزار روپے کا ضافہ کیا۔ میاں نواز شریف عوام سے محبت کے دعوے دار ہیں مگر انہیں یہ توفیق نہ ہوتی کہ ہاؤس رینڈ کے نام پر پینشن میں اضافہ کرتے۔ شنید ہے بھارت میں پینشن میں اضافہ حاضر ملازمین کی تنخواہ کے مطابق کیا جاتا ہے۔
امریکا کا صدر دنیا کا سب سے طاقت ور حکمران ہوتا ہے مگر وہ بھی عدلیہ کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے وہ احکامات جو امریکی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے عدلیہ ان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتی گویا امریکی عدلیہ صدر ٹرمپ کے لیے ٹرمپ کا پتا ثآبت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں قومی دولت لوٹنے والے گرفت میں آتے ہیں تو وکڑی کا نشان دکھا کر عدلیہ چیلنج کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی گرفتاری دکھاوا ہے، میڈیا اور مخالفین کا منہ بند رکھنے کے لیے انہیں عارضی طور پر بند کیا جارہا ہے۔
ہمارے آئین میں فرائض سے غفلت برتتے، اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنے کی ہدایت موجود ہے مگر آج تک کسی سیاست دان یا بیورو کریٹ پر اس آرٹیکل کے تحت مقدمہ درج نہیں ہوا۔
تھائی لینڈ کے سابق وزیراعظم ینگ لک شینا وترا کو فرائض سے غفلت برتنے پر مجرم قرار دے کر پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ شیناوترا پر الزام تھ اکہ انھوں نے چاول پر سبسڈی کی اسکیم میں ہونے والی بدعنوانی کو روکنے کی کوشش نہیں کی، فیصلہ سنانے والے ججوں کا کہنا ہے کہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں اس لیے سزا معطل نہیں ہوگی۔ کیا ہمارے ہاں یہ ممکن ہے؟