EOBIنے صنعتی مزدورو ں کو مایوس کیا ہے 

286

10ہمارے ملک میں آئی ایل او کے منظور شدہ کنوینشن کے تحت حکومت پاکستان نے سہ فریقی ویلفیئر اسکیموں کا اجراء کیاتھا جسمیں اولڈ ایج پینیفٹس انسٹی ٹیوشن کا ادارہ بھی شامل ہے ۔اس ادارے کے پہلے چیئرمین حاجی برکت اللہ مرحوم نے شب و روز محنت سے ادارے کو پروان چڑھایا اور اس ملک کی تاریخ میں کم ترین سٹاف سے بہتر کارکردگی کا ریکارڈ قائم کیا مرحوم چیئرمین ملکی سطح پر مستند مزدور رہنماؤں کے ساتھ دوستوں کی طرح تعلقات رکھتے تھے ۔ ای او بی آئی کے تمام ملازمین کوپورے ملکی سطح پر ناموں سے پہنچانتے تھے اور فیڈریشنوں کے دفاتر بھی آکر مزدور رہنماوں کی شکایات سنتے تھے ۔ ہماری نظر میں وہ اس ادارے کے فاونڈر چیئر مین تھے ۔ مگر ہمارے ملک میں جوکچھ ہوتا رہا ہے ان حالات کے وہ بھی شکار ہوئے ان کو کرپشن کے کیس میں پھنسادیا گیا جو مزدور طبقے کے لیے ناقابل یقین تھا ۔مگر اصل حقائق کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم کچھ دعویٰ سے نہیں کرسکتے اور حاجی برکت اللہ کے بعد بھی اس ادارے میں اچھے دیانتدار بیورو کریٹ بطور چیئرمین تعینات ہوئے ۔ مگر منتخب حکومتوں کے ساتھ اس ادارے پر بھی سیاسی وابستگی رکھنے والے لوگوں کو مسلط کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کی وجہ سے اس ادارے میں ملازمین کی بھرتی بھی سیاسی وابستگی کے حوالے سے کی گئی جس کے نتیجے میں نہ صرف کرپشن کا سلسلہ شروع ہوا ۔ بلکہ اس ادارے کی کارکردگی دن بدن گرتی جارہی ہے ۔ماضی میں جب ای او بی آئی کا سارا کام مینول طریقہ کار کے تحت ہورہا تھا تو ادارے کی جانب سے بڑھاپہ پنشن مکمل کرنے کی میعاد (35)روز مقرر تھے لیکن جب سسٹم کو کمپیوٹر ائز کیا گیا تو یہ میعاد 30یوم مقرر کی گئی پہلے والے طریقہ کار کے تحت تو بڑھاپہ پنشن 15روز کے اندر بھی مکمل ہوکر کارکنان کو مل جاتی تھی جبکہ موجودہ کمپیوٹرائز سسٹم کے تحت کئی سال میں بھی پنشن مکمل نہیں ہوتی اس وقت ایسے پنشن کیس بھی Paindingہیں جو دوسال پہلے داخل ہوئے تھے پیپلز پارٹی کی حکومت میں جب گوندل صاحب کو بطور چیئرمین تعینات کیا گیا تو اس نے اس ادارے میں تمام قائد ے قوانین اور مزدور رہنماوں کے تحفظات کو نظر انداز کرکے آمرانہ اور شخصی طریقے سے ادارے کو چلانے کی حکمت عملی پر عمل کیا اور جوماتحت افسران اس کی حکمت عملی پر عمل کرنے کو تیار نہ تھے انہیں بے عزت کیاگیا یا پھر انہیں ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا گوندل صاحب نے لاتعداد نئے افسران اور ملازمین بھرتی کئے اور پرانے افسران کے مقابلے میں ان نئے بھرتی ہونیوالوں کو نئی کاریں اور لیب ٹاپ دئے گئے ۔ان کی ٹریننگ پر خطیر رقم خرچ کرائی گئی انہیں اہم جگہوں پر تعینات کرکے سیاہ وسفید کا مالک بنایا گیا اور سینئر افسران کو کرپٹ اور ناکارہ کہہ کر کھڈے لائن لگایا گیا ۔ گوندل صاحب تو اپنے انجام کو شائد پہنچ جائیں گے مگر اس کی وجہ سے ای او بی آی کا جو نقصان ہو وہ ناقابل تلافی ہے۔ مگر اس عہدے پر سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تعیناتی سے ہونیوالے نقصان سے کچھ نہیں سیکھا گیا بلکہ (ن) لیگ کی حکومت نے اس عہدے پر اپنے من پسند افراد کی تعیناتی کا سلسلہ جاری رکھا اور سیاسی چھتری کے سائے میں آئیوالے چیئرمینوں نے اس ادارے کو اپنی جاگیر سمجھ کر من پسند اور یکطرفہ فیصلوں کا سلسلہ جاری رکھا سہ فریقی ادارے کے طورپر BOTکو بھی ہر معاملے میں نظر انداز کرکے شخصی اور آمرانہ فیصلوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور موجودہ چیئر مین ای او بی آئی نے تو تمام پیش رو چیئرمینوں پر سبقت حاصل کرکے تمام اہم اور بنیادی فیصلوں میں ایمپلائیر اور کارکنوں کے نمائندوں کی رائے کو عملی طورپر ختم کرکے بڑھاپہ بیوہ اور معذوری پنشن میں ایسی تبدیلیاں کرڈالی ہیں جسکی وجہ سے مستقبل میں کم از کم پچاس فیصد ریٹائرڈ معذور اور بیوائیں پنشن کے حق سے محروم رہیں گے ۔ میں نے دیگر مزدور رہنماؤں کے ساتھ مل کر چیئرمین ای او بی آئی سے ان متنازعہ معاملات پر کراچی میں گفتگو کی ہماری باتوں کو چیئرمین نے صبر و تحمل سے سنا ۔ مگر نتیجہ صفر نکلا۔جو انہوں نے یکطرفہ مزدور دشمن ہدایات شامل کی تھیں نہ صرف وہ برقرار رکھی گئی بلکہ ان میں SOPکے حوالے سے مزید اضافہ کرکے ایسی نئی ہدایات جاری کی گئی کہ آئندہ محنت کشوں کو اس ادارے سے پنشن کا حصول ممکن نہیں رہیگا ۔ اس سے پہلے والے چیئرمین نے نیشنل بینک آف پاکستان سے کارکنوں کی پنشن کی ذمہ داری واپس لیکر بینک الفلاح کے حوالے کی تھی جبکہ بینک الفلاح کی برانچیں ملک کے بہت سے صنعتی علاقوں میں موجود ہی نہیں ہیں اور ایسی صورت میں جب پنشن یافتہ شخص دوسرے بینک کے ATM سے پنشن نکلوائے گا تو اس کی پنشن سے کٹوتی ہوگی۔جبکہ ہم اس مہنگائی کے دور میں 5250/- روپیہ پنشن کو ناقابل عمل سمجھتے رہے ہیں مگر الفلاح بینک کو پنشن کے معاملات حوالے کرنے کے بعد ATMکے ذریعہ رقم نکلوانے پر پنشن مزید کم کردی گئی ہے۔موجودہ چیئرمین نے ای او بی آئی کو ذاتی جائیداد جان کر جونئے احکامات جاری کئے ہیں اس کا مختصر خاکہ پیش کیا جارہاہے تاکہ ملک کے حکمرانوں اور محنت کشوں کو بتایا جاسکے کہ اس ملک میں کارخانے داروں کے فنڈ سے چلنے والے اداروں میں کیا ہورہاہے ۔
حالیہ جاری کردہ ہدایات
-1 تاخیر سے پنشن کلیم داخل کرنے کے سلسلے میں SOPمیں سیکشن 26ای او بی آئی 1976 کی وضاحت کے نام پر ایک سال سے زیادہ مدت گذرنے پر پنشن کا حق بالکل ختم کردیا گیا ہے بلکہ اس سے قبل اسی سیکشن کے ہوتے ہوئے کئی کئی سال تاخیر کی وجہ سے بتاکر داخل کئے جانیوالے کلیم پر پنشن دی جاتی تھی ۔
-2 اگر کوئی پنشن کلیم ایک سال کے اندر اندر داخل کی جاتی ہے تو اس کے لئے Limitation Act 1908او رسول یا کریمنل قوانین کے تحت Delay Condemnationاور اس سلسلے میں عدالتی فیصلوں کے حوالے سے ایسی ایسی شرائط عائد کی گئی ہیں کہ ان شرائط کے ہوتے ہوئے RCCکمیٹی سے Delay Condemn ممکن نہیں رہیگا۔ کیا ان پڑھ اور قوانین سے ناواقف مزدوروں کو جبری طورپر اس مقام پر لاکھڑا کیا گیا جس مقام تک وہ مزید بیس سال تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ کیا کارخانے داروں کے فنڈ سے مزدوروں کو ملنے والے پنشن کے وارث بیورو کریٹ بن گئے ہیں جو جب چاہیں گورننگ باڈی سے منظوری حاصل کئے بغیر شخصی طورپر مروجہ طریقہ کار اور ضابطے تبدیل کریں ۔ کیا صنعتی کارکنوں کو ملک میں ہائی کورٹ کے فیصلوں کی آگاہی حاصل ہے جس کا حوالہ اس SOPمیں دیاگیا ہے ۔اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں سے تو مزدور رہنما بھی واقفیت نہیں رکھتے ۔
-3 اس سے قبل فارمولہ پنشن کے تحت زیادہ عمری میں ملازمت حاصل کرنے والے کارکنوں کو ابتک حسب ذیل خصوصی رعایت حاصل تھیں ۔
(الف) اگرکوئی کارکن 40سال کی عمر میں ملازم ہوا تو اس کو 7سال سروس پنشن کے لیے درکار تھی ۔ (ب) اگر کوئی کارکن 45سال کی عمر میں ملازم ہوا تو اس کو 5سال سروس پنشن کے لیے درکار تھی۔
اب موجودہ چیئرمین کے دور میں فارمولہ پنشن کے طریقہ کار کو بھی ختم کردیا اور صرف پنشن کے لئے پندرہ سال مدت ملازمت پوری کرنے پر ہی پنشن مل سکے گی ۔اس تبدیلی سے زیادہ عمری میں ملازم ہونیوالے محنت کشوں کو اس حق سے محروم کردیاگیا ہے ۔
-4یہ کہ نئی ہدایات کے تحٹ اگر کسی کارکن کا نام PR02میں درج نہ ہو تو وہ پنشن کی درخواست نہیں کرسکتا ۔ جبکہPR-02میں نام کا اندراج 15%کارکنوں کا ہوتا ہے اور 85% مزدوروں کا پریمیم بچانے کیلئے کارخانے داراور ای او بی آئی افسران کی ملی بھگت سے اندراج نہیں ہوتا۔ مگر اس کرپشن کا ذمہ دار بھی محنت کشوں کو بنادیا گیا ہے جبکہ ماضی میں پنشن کلیم داخل کرنیوالے کارکنوں کا متعلقہ ادارے کے ریکارڈ سے سروس کی تصدیق کی جاتی تھی اور فیلڈ افسر کی مثبت رپورٹ کے بعد پنشن کے لئے معاملے کو آگے بڑھایا جاتا تھا میں نے چیئرمین ای او بی آئی سے پوچھا کہ PR-02میں نام درج نہ ہونے کے بعد اگر ادارے کے ریکارڈ سے فیلڈ افسر کنفرم کرتا ہے ۔ کہ کلیم داخل کرنیوالے کی مطلوبہ سروس پوری ہے تو کیاہوگا۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا پر نالہ وہیں گررہاہے کہ PR-02میں نام درج نہ ہونے پر پنشن کی کاروائی نہیں ہوگی۔
-5بیوہ پنشن کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کر دی گئی پہلے تو Late Condumnation کا شکار ہوگی اس کے بعد اس کو تاریخ وفات سے پنشن ملنے کی بجائے اس تاریخ سے مل سکے گی جس تاریخ پر بیوہ نے کلیم داخل کیاہے اس طرح بیواؤں کوملنے والے مالی سہولیات سے محروم کرد یا گیا ہے ۔
-6 کان کنوں کو دس سال سروس پر پنشن ملتی تھی جنرل پروز مشرف کے آمرانہ دور میں فنانس بل کے ذریعے قوانین میں جو ترمیم کی گئی تھی اس میں کان کنوں کی مدت ملازمت دس سال سے بڑھا کر پندرہ سال کردی گئی ۔ سندھ ہائی کورٹ اور پنجاب ہائی کورٹ نے فنانس بل کے ذریعہ قانونی ترمیمات کو آئین کے خلاف قرار دیکر مسترد کیا ۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ۔مگر ای او بی آئی مزید عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے اس معاملے کو لٹکائے ہوئے ہے تاکہ مزدوروں کو رعایت اور سہولیت نہ مل سکے ۔
-7یہ کہ مذکورہ بالا تبدیلیوں کے سلسلے میں اس سہ فریقی ادارے کے گورننگ باڈی کو بھی اعتماد میں لینے اس سے منظوری حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ کیونکہ بیورو کریٹ اس ادارے کے سہولیت کار کی بجائے عملی طورپر مالک بنے ہوئے ہیں ۔ان کی عیاشیوں اور مراعات میں روز بروز اضافے ہورہے ہیں مگر مزدوروں ، بیواؤں اور معذوروں کے لیے ای او بی آئی فلاح وبہبود کا ادارہ نہیں رہا اور نہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس ملک کے حکمران یا مزدوروں کی دوستی کے دعویدار سیاسی جماعتیں ان معاملات پر آواز اٹھائیں گے ۔اس مقصد کے لیے ٹریڈ یونین سے وابستہ منظم کارکنوں کو سڑکوں پر آنا ہوگایا پھر ہائی کورٹ میں ان تبدیلیوں کو چیلنج کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں ۔